تحریر: قاضی کاشف نیاز مئی 2011ء کے بعد جب امریکہ نے مبینہ طور پرایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا’اسی مئی کے مہینے میں امریکہ کی طرف سے پاکستان کی خودمختاری پرایک اوربڑے حملہ کی خبرآئی۔ یہ ایک ڈرون حملہ تھا ۔امریکی محکمۂ خارجہ کے مطابق اس ڈرون حملے میں افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور جاں بحق ہوئے۔وہ تفتان سے کوئٹہ جانے والی ایک گاڑی میں سوارتھے کہ امریکی جاسوس طیارے نے اسے نشانہ بنادیا۔ حملے میں ملا اخترمنصور اور ان کے ڈرائیور محمداعظم نشانہ بنے ۔تاہم پاکستانی دفترخارجہ نے مرنے والوں کی شناخت ولی محمد اور ڈرائیور محمد اعظم کے نام سے کی۔
جمعیت علمائے اسلام(ف)کے رہنما سینیٹر حافظ حمداللہ نے کہاہے کہ ملاختر منصور 10ماہ پہلے ہی جاں بحق ہوچکے تھے’ڈرون حملے میں ان کے مارے جانے کی اطلاع محض امریکی ڈرامہ ہے۔وزیراعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف نے اس حملے کی روایتی مذمت کی ۔تاہم جب امریکی صدر اوباما نے بیان دیا کہ امریکہ اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اس طرح کے حملے جہاں چاہے پوری دنیامیں کرتارہے گاتواس پر وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے سخت الفاظ میں نوٹس لیا۔انہوں نے کہاکہ دنیامیں جنگل کاقانون نہیں چل سکتا۔ہرملک امریکہ کااصول اپنالے تودنیاجنگل بن جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ ڈرون حملوں کا امریکی جواز ناقابل قبول اورناقابل برداشت ہے۔یہ پاکستان کی خودمختاری کے خلاف اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کی مکمل نفی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملا منصور امن میںرکاوٹ نہیں تھا۔ایساہوتاتو وہ مری مذاکرات میںکیوں جاتا۔ انہوں نے واضح طورپر کہاکہ لیڈر کومار کرطالبان کومذاکرات کی میز پرنہیں لایاجاسکتا۔انہوں نے کہاکہ امریکہ کے لیے خطرہ بننے والے لوگ صرف پاکستان میں نشانہ کیوں؟سرحدپار افغانستان میں بھی دہشت گرد بیٹھے ہیں’پاکستان تووہاں گولہ باری نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈرون میزائل کا نشانہ بننے والی گاڑی راکھ کاڈھیر بن گئی’لاشیں ناقابل شناخت ہوگئیں۔ شناختی کارڈ کس نے پھینکا…
Pakistan
اس کی تحقیقات ہورہی ہیں۔انہوں نے متنبہ کیا کہ امریکی دھمکیاں بلاجوازہیں۔ اس سے تعلقات متاثرہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حملہ پاکستان سے باہرہوا جہاں سے گاڑی پرمیزائل داغاگیا۔ جس ملک سے حملہ ہوا’ابھی اس کانام نہیں بتاسکتے۔اگرچہ امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے کہاہے کہ پاکستان افغان قیادت کوحملے سے آگاہ کردیاتھا’ تاہم چودھری نثار علی خان نے کہاکہ پاکستان کو7گھنٹے بعد اطلاع دی گئی۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہمارے حکمران ایک عرصہ سے جس طرح کاطرزِ حکومت اورنظام حکومت چلارہے ہیں’ اس میں یہ کیسے ممکن ہے کہ ہمارے دشمن ہم سے پوچھ کریاہمیں اطلاع دے کرحملہ کریں۔اور پھر اطلاع دے کرحملہ کرنے اور اعتماد میں لے کر حملہ کرنے میں بھی بڑا فرق ہوتاہے۔ اعتماد میں توانہیں لیا جاتا ہے جنہیں کوئی اپنے برابر یا قریب قریب اپنے جیسا ہی سمجھے۔ یہاں توابھی ہمارے حکمرانوںکاقداتناہے کہ کوئی انہیں اطلاع دے کرحملہ کرنے کی بھی تکلیف نہیں کررہا’اعتماد میں لیناتو بہت دورکی بات ہے۔ہمارے حکمران قومی عزت اور خودمختاری کوجس طرح گروی رکھ کر محض مال اور اقتدار کے لیے نیلام کیے ہوئے ہیں ‘ان حالات میں ہمارے دشمنوں کاحملہ کے بعدبھی اطلاع کردینا’اسے ان کی مہربانی ہی کہناپڑے گا۔
اگر ہمارے حکمران اور سیاستدان پہلے دن سے اصولی سیاست کرتے اور قومی مفادات پر کسی صورت کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کی آبرومندانہ راہ اختیار کرتے تو پاکستان کومسلسل ایسے ہتک آمیز اور توہین آمیز حملوں کا نشانہ نہ بننا پڑتا۔یہاں تو صورتحال یہ ہے کہ پانامہ لیکس سے ڈرے ہوئے حکمران محض اپنی کرسی کے بچاؤ کے لیے زرداری جیسے بدنام زمانہ کرپٹ سیاستدان کوبھی صدربنانے کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔دوسری طرف کرپشن کے خلاف سب سے زیادہ بولنے والے لیڈرعمران خان انڈیااور امریکہ کے معاملے میں خاموش ہوجاتے ہیں۔قوم ان سے بجاطورپر سوال کرتی ہے کہ کل بھوشن جیسے بھارتی تخریب کار ایجنٹوں اور امریکی ڈرون حملوں پرہمارے یہ اصول پسندسیاستدان مہربہ لب کیوں ہوجاتے ہیں۔کیاملکی سلامتی اورخودمختاری کامسئلہ کرپشن کے مسئلہ سے بھی گیاگزرا ہے۔ہمارے حکمرانوں اورسیاستدانوں کی یہی بے اصولی سیاست ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان کاہرچھوٹابڑا مخالف پاکستان کے خلاف جوجی میں آتاہے’ کہہ اور کرگزرتاہے۔
Narendra Modi
اسی سے حوصلہ پاکربھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے بنگلہ دیش میں کھڑے ہوکر پاکستان توڑنے کافخریہ اورعلانیہ اعتراف کیا لیکن ہمارے کسی حکمران اور سیاستدان کو اس کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جاکر اسے دہشت گرد قراردلوانے کی کوشش کرنی تودور کی بات’ مودی دوستی کے نشے میں بہک کر اس کی کھل کر مذمت کرنے کی توفیق بھی نہ ہوسکی۔اسی سے حوصلہ پاکربنگلہ دیش ہمیں آنکھیں دکھاکر پاکستان کانام تک لینے والوں کو سرعام پھانسیوں پر لٹکا رہاہے اور ہم چوں بھی نہیں کرسکتے۔ اور تو اور افغانستان جیساچھوٹاملک بھی اب مودی اورایران کے ساتھ اتحاد ثلاثہ بناکر اور چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دے کر پاکستان کی اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سرگرم ہوگیاہے۔ ملک میں لے دے کے صرف جماعت اسلامی اورجماعة الدعوة جیسی چند دینی جماعتیں اوران کے قائدین ہی رہ جاتے ہیں جو ہرایسے موقع پر پوری قوم’ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو قومی وملی حمیت کابے خوف درس دیتے ہیں۔
ہمارے حکمران ترکی کو عام طورپربڑا رول ماڈل قرار دیتے ہیں لیکن کیاانہوں نے ترکی کی معاشی پالیسیوں کے علاوہ ترکی کی سیاسی پالیسیوں کو بھی کبھی رول ماڈل بنانے کی کوشش کی؟ پاکستان تو ایک ایٹمی میزائل بردار ملک ہے اور اس لحاظ سے دنیا کی تیسری بڑی طاقت بننے کے قریب ہے لیکن ترکی نے ایک غیرایٹمی ملک ہوکر اپنی حدود کی خلاف ورزی پر دنیاکی دوسری بڑی طاقت روس کے طیارے کو اس کی حدود کی معمولی خلاف ورزی پرنیچے گرا کر اس کے پرخچے اڑادیے۔ روس نے شروع میں بدلہ لینے کی بڑی دھمکیاں دیںلیکن کیا روس اس کے خلاف 6ماہ گزرجانے کے باوجود کچھ کرسکا؟دراصل جب دشمن کو یقین ہو کہ کسی ملک کے حکمران اورعوام قومی سلامتی اور خودمختاری پرکسی صورت کوئی سمجھوتہ کرنے والے نہیں اور وہ ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں تو ایسے ملک پرحملہ کرتے ہوئے دشمن بھی ہزاربار سوچتاہے۔
Allah
ترکی نے یہ اصولی سیاست کی راہ اپنائی توایک غیرایٹمی ملک ہونے کے باوجود دنیاکی بڑی سے بڑی طاقت بھی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتی لیکن اگریہ اصولی سیاست نہ اپنائی جائے ‘ غیر اللہ کاخوف ختم کرکے صرف اللہ پرتوکل اوربھروسہ والاایمان پیدا نہ کیاجائے تو پھرایٹمی ملک ہونے کے باوجود اس سے کوئی بڑی طاقت توکیا’چھوٹے چھوٹے ملک بھی نہیں ڈرتے۔ہمارے حکمران اور سیاستدان تاریخ اسلام اورماضی کے ایسے بے شمارحقائق نہ سہی’ آج کے صرف ترکی کی ہی مثال سامنے رکھ لیں تو ماضی میں جو ہوا ‘سوہوا’کم ازکم آئندہ ہمارا مستقبل ہی محفوظ اور بہتر ہوجائے۔
جناب نوازشریف سے گزارش ہے کہ ترقی کے منصوبے بے شک جتنے چاہے بنائیں لیکن اگرملک کی سلامتی اور خودمختاری ہی محفوظ نہیں توپھربڑی سے بڑی ترقی کاکوئی فائدہ نہیں۔اللہ سے دعاہے کہ وہ ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عقل اور سمجھ دے کہ وہ اپنے ذاتی اور پارٹی مفادات سے بلند ہوکر سوچنا شروع کریں۔اسی میں ان کی اور پورے ملک وقوم کی اصل عزت ‘کامرانی اور بقاء و ترقی کاراز ہے۔آمین