تحریر : چودھری عبدالقیوم سینٹ آف پاکستان کے ریٹائر ہونے والے 52 ارکان کی جگہ پرنئے ارکان کا انتخاب تین مارچ کو مکمل ہو گیا ہے۔ نتائج کیمطابق مسلم لیگ ن پہلے،پیپلز پارٹی دوسرے اور تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہیں۔ممبران کے انتخاب کے بعد اب چیئرمین سینٹ کے انتخاب کے لیے جوڑتوڑ شروع ہے۔سینٹ الیکشن نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ وطن عزیز میں سیاست سرمائے کا کھیل ہے سینٹ کے لیے ووٹ خریدنے کے لیے کھلی منڈی لگی جس میں سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے کروڑوں روپے خرچ کرکے کامیابی حاصل کی۔ کئی جگہ پرعوام کے منتخب عوامی نمائندوں یعنی ممبران اسمبلی نے اصولوں اور ضابطوں کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ضمیر کیخلاف اپنے پارٹی امیدواروں کی بجائے کروڑوں روپے وصول کرکے دوسری پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دئیے۔جس کا سیاسی جماعتوں کو بھی بخوبی اندازہ ہے۔
اس کے لیے مسلم لیگ ن، تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے اپنے طور پر تحقیقات بھی شروع کردی ہیں کہ ایسے ارکان اسمبلی کاپتہ چلایا جائے جنھوں نے اپنی جماعت کے امیدواروں کی بجائے دیگرپارٹیوں کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دئیے ہیں تاکہ ان کیخلاف کاروائی کی جاسکے .جبکہ ایم کیوایم والوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر سینٹ انتخابات کو کالعدم قرار دیدے۔کیونکہ سینٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا دیگر سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ نقصان ایم کیوایم کو ہوا ہے جسے صرف ایک نشست ملی۔سینٹ کے الیکشن میں ووٹوں کی خریدوفروخت کی روایت پرانی ہے اور موجودہ الیکشن سے پہلے بھی یہ آوازیں اٹھائی گئی تھیں کہ ووٹرز کی وفادریاں خریدنے کی کھلی منڈی لگ گئی ہے۔لیکن اس کے باوجود الیکشن کمیشن سمیت کسی ادارے نے اس چیز کیخلاف کوئی کاروائی نہیں کی کیونکہ ووٹ خریدنے کی کوئی رسید یا ثبوت نہیں ہوتا۔لیکن اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمارے ہاں سیاست میں میں سرمائے کا استعمال عام ہوچکا ہے۔
قومی،صوبائی اسمبلی یا سینٹ کا الیکشن ہو یا ایک یونین کونسل کے ممبر یا چیئرمین کا الیکشن اس میں کوئی امیر آدمی یا سرمایہ دار ہی حصہ لے سکتا ہے ایک عام آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔پاکستان کی سیاست میں سرمایہ خرچ کرنے کا رواج جنرل ضیاء مرحوم کے دور میں ہوا جب اس نے1985ء میں پہلی بار غیرجماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کرائے۔سیاسی جماعتوں پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی کے باعث الیکشن میں روایتی اور پرانے سیاستدانوں کی بجائے نئے لوگوں نے حصہ لیا جو اکثر صنعتکار اور سرمایہ دار تھے انھوں نے آتے ہی سیاست میں سرمائے کا ستعمال شروع کیا اس طرح سیاست ایک مشن کی بجائے سرمایہ کاری اور کاروبار بن گئی۔اب سیاست میں سرمائے کا استعمال ایک معمول بن چکا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس وقت ہماری اسمبلیوں اور سینٹ میں 95 فیصد لوگ صنعتکار اور سرمایہ کار بیٹھے ہوئے ہیں ۔پہلے سیاست کے لیے اہلیت،دیانتداری ،جذبہ حب الوطنی اور صاحب کردار ہونا ضروری سمجھا جاتا تھالیکن افسوس کہ یہ چیزیں غیراہم ہوگئی ہیں اب الیکشن کے لیے سرمایہ دار ہونا سب سے زیادہ ضروری ہے یہ بات یہاں تک بڑھ چکی ہے کہ سرمایے کے بل بوتے پر کئی کرپٹ لوگ بھی اسمبلیوں میں داخل ہوچکے ہیں ہیں جنھوں نے سیاست کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور وہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
سرمایہ کا اسمبلیوں اور اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ کر اپنے سرمائے کو بڑھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں انھیں عوام کے مسائل حل کرنے اور ملک کی ترقی و خوشحالی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی انھیں صرف اور صرف اپنی صنعتوں کی ترقی اور سرمایہ بڑھا نے سے مطلب ہوتاہے اور اس میں وہ لوگ بڑی حد تک کامیاب جارہے ہیں جو چند سال پہلے تک معمولی کاروبار کے مالک تھے آج وہ اپنی سیاسی سرمایہ کاری کی بدولت کروڑ پتی ہی نہیں ارب پتی بن چکے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کی جائدادوں اور سرمائے کا شمار کرنا مشکل ہے تو یہ غلط نہ ہو گا ۔اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک بیشمار مسائل سے دوچار ہے بیرونی قرضے کہیں سے کہیں پہنچ چکے ہیںپاکستان کا ہر بچہ لاکوں روپے کا مقروض وہ چکا ہے۔اس چیز کا احساس کچھ محب وطن سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کیساتھ عوام کو بھی ہو رہا ہے کہ پاکستان کی سیاست میں سرمائے کا استعمال جمہوریت اور سیاست کیساتھ ملک کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ ہے۔
اس لیے جلد یا بدیر اس کا تدارک کرنا ہوگا۔لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں اقتدار کے ایوانوں اور اسمبلیوں کے اندر بیٹھے سرمایہ کار اس کی راہ میں بڑی روکاوٹ ہیں جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ سیاست جو اب ان کے لیے ایک منافع بخش کاروبار ہے اس میں عام آدمی آگے آئے جس سے ان کی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے۔لیکن اب عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے کہ سیاست میں سرمایہ کاروں کی بجائے دیانتدار،اہل اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ایسے لوگوں کو آنا چاہیے جو واقعی عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں اور پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کا پروگرام رکھتے ہیں تاکہ سیاست پاک اور صاف ہو ۔اچھے لوگ سیاست کریں سرمایہ کار اور صنعتکار اپنے کاروبار کریں۔اس سے واقعی عوام کے مسائل حل ہونگے اور پاکستان ترقی اور خوشحالی کی منزلیں طے کرے گا۔