اندھی آنکھوں والا راجہ گدھ موے گھر آوے گا

Election

Election

تحریر : قادر خان یوسف زئی
پاکستان کی انتخابی سیاست کے آخری راؤنڈ میں داخل ہو چکی ہے۔ وارم اپ جلسے جلوس اور مظاہروں کے علاوہ صوبائی حکومتوں کے مستقبل کے حوالے کیساتھ ساتھ سینیٹ کے انتخابات پر قیاس آرائیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ کراچی سے لیکر خیبر تک بلوچستان کے پہاڑ ہوں یا پنجاب کے کھیت کلیان، مملکت میں غیرمتوقع قومی و صوبائی انتخابات کے حوالے سے قبل ازوقت ہونے کی منادیوں میں خواہشات، توقعات اور مطالبات کیلئے کمر کس لی گئی ہے۔ برملا کہا جائے کہ اپوزیشن جماعتوں کو فکر ہے تو اس بات کی کہ کسی طرح بھی حکمران جماعتوں کا فل فائنل ہوجائے۔ جیسے جیسے وقت گذرتا جارہا ہے الزامات کی گولہ باری اور دباؤ ڈالنے کیلئے مختلف سیاسی حربے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ گھروں میں بیٹھے کارکنان کے دُور کے رشتے داروں کی وفات بھی ہوجائے تو عہدے دار غم میں شریک ہونے پہنچ جاتے ہیں اور کانا پوسی کرتے پوچھتے ہیں کہکارکن کون سا ہے ایسا نہ ہو کہ غلطی ہوجائے اور کسی کو گلے سے لگا لوں۔

آج کی سیاست میں جتنی سطحی سیاست ہو رہی ہے شائد اس حوالے سے پاکستانی عوام نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔ کسی علاقے میں اگر کوئی جرم ہوجائے تو اس جرم کا مجرموں پر دھیان کم اور مخالف جماعت کے علاقوں کے جرائم کو اس طرح نمایاں کیا جارہا ہے جیسے اس سے بڑی خدمت کوئی اور ہے نہیں۔ قصور میں (ز)کا اندوہناک سانحہ رونما ہوا۔ پھر تو ایسا لگا کہ جیسے پاکستان کے کونے کونے میں زیادتی کے واقعات ڈھونڈ ڈھونڈ کر تلاش کئے جا رہے ہوں۔ کونسا ایسا شہر نہیں ہوگا کہ ہمارے الیکڑونک میڈیا کے شاہین وہاں نہیں پہنچے۔ قصہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ افسوس ناک صورتحال اس سے بھی زیادہ بڑھ گئی کہ پرانے واقعات کو دوبارہ ہیڈ لائن بنائے جانے لگا۔ سوشل میڈیا تو ہے ہی شتر بے مہار۔ متاثرہ خاندانوں کے ساتھ حقوق کے نام پر جس قسم کی نا انصافیاں کی جا رہی ہیں اس کا تو کوئی حساب کتاب نہیں ہے۔ بلاشبہ ہمارے بعض ریاستی ادارے اس قدر مضبوط نہیں ہیں کہ انہیں ازخود کچھ کرنے کی جرات ہو۔ مجبوراََ سوشل میڈیا کی چیخ پکار کے بعد ہی ارباب اختیار جاگنا پڑتا ہے۔ لیکن ایسا کب تک ہوتا رہے گا۔ کیا اس پر کبھی ہم نے غور فکر کیا ہے۔

پاکستان مسلم لیگ ن کی طرز حکمرانی سے اختلاف رائے و تنقید جمہوری حق ہے۔ لیکن ان ساڑھے چار برسوں میں جس قسم کی سیاست موجودہ اپوزیشن کرتی رہی وہ بھی قابل ستائش نہیں۔ دھرنے احتجاج، مظاہرے، پارلیمنٹ سے بائیکاٹ، پارلیمان سے استعفے، اداروں کی بے توقیری، عوامی جلسوں میں گالیاں و نجی زندگیوں میں مداخلت۔۔ غرض یہ ہے کہ ساڑھے چار سال میڈیا کے توسط سے پاکستانی عوام کو یرغمال بنائے رکھا گیا۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد نت نئے تماشے کرنے والے اور ایک دوسرے کی ذات پر گندگی تھوپنے والے کو پھر یکجا دیکھا گیا۔ ایسا لگا جیسے کسی سنیما گھر میں مختلف فلموں کے شوز چل رہے ہوں۔ تین سے چھ، چھ سے نو، نو سے بارہ۔۔ مال روڈ ہو یا بندر روڈ، ا ملک کا کوئی بھی حصہ صرف ایک دن بند رہنے کی وجہ سے کروڑوں روپے کا تجارتی نقصان دے جاتا ہے۔

پاکستان ایک ایسی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے کہ جہاں تجربات ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر نہیں بلکہ تجربات کیلئے بطور لیبارٹری عمل میں لایا گیا تھا۔ احتجاج کرنے والوں کے پاس جمہوری حق موجود ہے کہ وہ پُرامن احتجاج کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ کس قسم کا احتجاج ہے جس میں عوام کے مسائل کاحل نہ ہو۔ عوام کو بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم نے کیا کیا۔ عوام تو خو د دیکھ رہی ہے کہ کس نے کیا کیا نہیں کیا۔ جو اچھا کیا وہ بھی عوام جانتی ہے اور جس نے عوام کے کچھ نہیں دیا انہیں بھی عوام بخوبی جانتی ہے۔ روزانہ میڈیا میں آئے بیانات سے علم ہوجاتا ہے کہ منشور کس کا کیا ہے۔ عوام اب اتنی بھی بے شعور و بے حس نہیں کہ سمجھ نہ سکے۔ مخلص ہیں تو آئیں یہ دھرنا اُس وقت تک دیں جب تک بلدیہ ٹاؤن کے ڈھائی سو سوختہ لاشوں کے سوگواروں کو انصاف نہیں ملتا۔ آج بھی کئی لاشیں بغیر شناخت دفن ہیں ان کی شناخت تو انہیں لوٹا دیں۔ آج ایک پروفیسر کی موت کی آڑ لیکر پاکستان کے خلاف واشنگٹن میں فری کراچی کی مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔ فری بلوچستان مہم پر تو کبھی احتجاج نہیں کیا تو فری کراچی مہم پر کیا کرو گے۔بارہ مئی کا سانحہ منوں مٹی تلے دفن ہوگیا اب تو کوئی اس سانحہ کا نام بھی نہیں لیتا، قاتل مظلوم بن گیا، مظلوم قاتل بن گیا۔ چشم فلک نے یہ نظارا بھی دیکھا کہ بارہ مئی سانحہ میں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے والے مل کر اتحاد و پریس کانفرنس کررہے تھے۔

آپ ہی اپنی اداؤں پر ذرا غور کیجئے
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی

اصل قیامت تب برپا ہوگئی تھی جب ایک لیڈر کی موت پر پورا ملک ماتم کدہ بنا تو معاشی شہ رگ کو گدِ ھوں نے نوچ نوچ کر کھایا، ان لاشوں کا حساب بھی ابھی باقی ہے لیکن انہیں انصاف کبھی نہیں ملے گا۔ جب وکلا کو زندہ جلایا گیا تو مفاہمت کی دوستی کا بھرم رکھ کر معافی تلافی مانگی جا رہی تھی۔ سیاست کے اٹوٹ رشتے بے گناہوں کی لاشوں کے کفن سے جوڑے جا رہے تھے۔ یہ ہم سب پاکستانی بخوبی دیکھتے رہے ہیں۔ سمجھتے رہے ہیں، لیکن ہمارے دلوں میں کیا واقعی مہر بے حسی ثبت ہوچکی ہے کہ ہم سن نہیں سکتے، دیکھ نہیں سکتے، بول نہیں سکتے، سوچ نہیں سکتے۔نہ جانے شعور کی منزل کو ہم کب پائیں گے کب ہم جان پائیں گے کہ قوم کے اصل مجرم کون ہیں۔ پاکستان کی کرم خوردہ وجودکو کس کس نے، کس کس رخ سے نہیں نوچا۔ آؤ ایک بار پھر کوشش کرکے دیکھ لیں کہ ایک دوسرے پر تہمتیں لگانے اورلعنت بھیجنے والے عوام کو کب مقدس سمجھیں گے۔ یہ وقت تو گذر ہی جائے گا کیونکہ 70برس بھی اسی طرح گذرگئے ہیں۔ تاریخ دوہرانے کے لئے تاریخ داں بننا پڑتا ہے۔ کوئی نہیں رہے گا تاہم یہ پاکستان ضرور رہے گا۔ تاریخ میں صرف انہیں ہی یاد رکھا جاتا ہے جو تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ تاریخ کا حصہ بننے کے لئے تاریخ ساز کردار بننا ہوتا ہے تاریخ لکھنے کیلئے تاریخ ساز ہونا ضروری ہے۔

تاریخ کے اوراق میں جگہ پانے کیلئے حدود کا تعین ضروری ہے۔ ان حدود میں ہمارا اپنا کردار کیا ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو غور وفکر سے کام نہیں لیتے تو وہ تما م ذی حیات سے بھی بدتر ہیں۔ میں،آپ اور ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ سیاست کے تعفن کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔ کیا امن کا کوئی ایسا سانس ہے جیسے ہم سب ملکر سکون سے لے سکیں۔ کیا ہم اپنی بے حسی کی لاش کو گِدھوں کے نوچنے سے قبل عزت و احترام کی چادر سے ٹھانپ سکیں۔ اگر خود کو گِدھوں کے حوالے نہیں کرنا اور جان بھی،ذرا سی سانس و احساس میں ذرا سی رمق اور دلوں میں جینے کی امنگ باقی ہے تو خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں کیونکہ گِدھوں کو بھگانے اور لانے والا کوئی اور نہیں آپ اور ہم خود ہیں۔ فروری میں کیا ہونے والا ہے اس پر پوری دنیا کی نظر ہے کہ جب وطن عزیز کو افغانستان، بھارت اور امریکہ سے دہمکیاں مل رہی ہوں اس پر کوئی اتفاق رائے دیکھنے میں آئے گا یا پھر سیاسی جوڑ توڑ ہو رہی ہوگی کہ ملک کا آیندہ وزیر اعظم کون بنے گا۔ سینیٹ کے انتخابات کس طرح روکے جائیں گے۔ قبل از وقت انتخابات کیلئے حکومت کے تابوت میں آخری کیل کس طرح ٹھونکی جائے گی۔ سیاسی جماعتوں نے تو انتخابات کے لئے اپنے نمائندے منتخب کرلئے ہیں لیکن پاکستان کے عوام کے لئے حقیقی نمائندگی کا حق دار کون ہوگا اس کا فیصلہ کسی اور نے نہیں بلکہ خود پاکستانی عوام نے کرنا ہے۔

کوئی میدان میں اگر آئے۔ حق تو یہ ہے کہ اٹھا کے سر آئے

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی