تحریر : جمشید یوسفزئی میں نے پاکستان کے تقریباً تمام کالم نگار، صحافی، دانشوراورتجزیہ نگاروں کی تحاریر، بیانات اورتجزئے پڑھے، سنے اوردیکھے ہیںلیکن یہ بات میں وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ ان میں بہت کم لوگ سچائی اورحق کاعلم بلند رکھتے ہیں۔یہی صورتحال پاکستان کی سیاست کابھی ہے، جہاں صرف ان لوگوں کاسکہ چلتاہے ،جن کے پاس پیسہ، اختیاراورطاقت ہو۔پاکستان کو معرض وجودمیں آئے ہوئے تقریباً اڑسٹھ سال کاعرصہ ہوالیکن پاکستان پر کسی نہ کسی شکل میں ان بے حس ، لٹیروں اوربدعنوان لوگوں کی حکمرانی ہوتی رہی ہے اورپوراسیاسی نظام ان لوگوں کے گردگھومتاہے۔ایک ایک آدمی کے پورے خاندان کامکمل نظام پر قبضہ ہوتاہے ۔ملک کے تمام وسائل پرصرف ان کاہی حق ہوتاہے یاانکے اقرباکا، باقی عوام کو کوئی حق نہیں ہوتا ۔ایک موروثی سیاسی نظام ہے۔سارے آپس میں رشتہ دارہوتے ہیں ۔کوئی ایک پارٹی کاصدرہے تواسکابھائی دوسری پارٹی کااورچچاکسی اورپارٹی میںاعلیٰ عہدیدار ہوتاہے۔اس طرح الیکشن کمیشن کی کارکردگی کودیکھیں اورپھردوسرے تمام اداروں کی کارکردگی کاجائز ہ لیں تویہ بات آپ ہرواضح ہوجائے گی کہ اس ملک میں غریب عوام کا کوئی پرسان حال نہیں اوریہاں کسی کا کوئی جائزمسئلہ بھی بغیر تعلق، پیسے اورسفارش کے حل نہیں ہوتا۔
پولیس تھانوں سے لیکر انتظامی اداروں تک اورپھر تعلیمی اداروں سے شروع کرکے ہسپتالوں تک ہرجگہ صرف اورصرف پیسے والوں کاراج ہوتاہے۔میں نے گذشتہ دورحکومت میں اوراس سے پہلے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے، کس طرح چھوٹی چھوٹی جائز ضرورتوں کیلئے اوراپنے حق کے لئے سرعام رشوت طلب کی جاتی تھی۔ہرادارے کے اندرایک عام کلرک سے لیکر بڑے افسرتک ہرایک کی نظرسائل کے جیب پر ہوتی تھی، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور تعلیمی بورڈز میں ایک ایک پیپرپاس کرنے کے لئے بیس بیس ہزارروپے لئے جاتے تھے۔عام پولیس سپاہیوں ، اساتذہ اوردیگرسرکاری ملازمین کے تبادلے کے لئے ایک ایک لاکھ روپے طلب کئے جاتے تھے۔ سرکاری ملازمت کے لئے سکیل کے حساب سے ایک لاکھ روپے فی سکیل شرح مقررتھی۔ایک منسٹرتک پہنچنے سے پہلے اسکے ایم پی اے، پرسنل سیکرٹری، کسی علاقے میں انکے ورکروغیرہ سب کااس میں حصہ ہوتاتھا۔
ایسے حالات میں پاکستانی بے بس اورمجبورعوام کی امیدوں کے تمام دئے بجھے ہوئے تھے اورانکے خیال میں پاکستان میں تبدیلی کے کوئی اثرات نظرنہیں آتے تھے لیکن میرے خیال میں اس نظام میں تبدیلی مشکل تونظرآتی ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ ناممکن کے لئے انگریزی لفظ Impossibleکو الگ الگ لکھاجائے تواسکی صورت یہ ہوجائے گی۔I am possibleیعنی یہ لفظ خود خودکہتاہے ” میں ممکن ہوں”۔ لہذا اس نظام کے خلاف عمران خان نے آوازبلند کی اورتمام محب وطن پاکستانی بالخصوص نوجوانوں نے انکی آواز پرلبیک کہا۔عمران خان نے پہلی مرتبہ پاکستانی قوم کو انکے حقوق بتادئے ، ورنہ یہاں کسی کو بھی اپنے حق کاپتہ نہیں تھا۔نوجوانوں میں یہ احساس اورجذبہ پیداہوا کہ میرٹ نام کی ایک چیز ہے اوراس پر ان کابھی حق ہے۔ فرسودہ انتخابی نظام کے خلاف تحریک چلائی اورپھریوں ہواکہ پوری دنیانے اس حقیقت کو تسلیم کیاکہ پاکستان میں ساری زندگی غلط اورفرسودہ انتخابی نظام کے تحت نااہل اوربدعنوان لوگ برسراقتدارآتے ہیں۔
Khyber Pakhtunkhwa
خیبرپختونخواہ میں ساری دنیانے واضح تبدیلی کے اثاردیکھ لئے اورپھرمخالفین نے بھی تسلیم کیاکہ واقعی خیبرپختونخواہ میں نظام تعلیم، پولیس تھانوں میں ، ریونیو اورپٹوارخانوں میںواضح تبدیلی آئی ہے۔ سرکاری سکولوں میں سوفی صداساتذہ کی حاضری یقینی بنائی گئی ہے۔ پٹواری جواب بغیرپیسے لئے انتقالات وغیرہ کرواتے ہیں۔صوبے میں مختلف بدعنوان افسروں اوراہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائیاں کی جاچکی ہیںاورانہیں سزائیں بھی دی گئی ہیں۔جوکام پہلے ناممکن دکھائی دیتاتھا، اب ممکن ہواہے اورعام لوگوں نے دیکھاہے کہ واقعی ہرکسی کوانصاف ملتاہے اورحکومت تک رسائی عام آدمی بھی کرسکتاہے ۔تمام حکومتی اداروں میںمیرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوتی ہیں ۔ ایسے میں عمران خان کی مخالفت کرنیوالوں کے بارے میں مجھے یہ یقین ہواہے کہ انہیں عمران خان کی مقبولیت سے جلن ہوتی ہے اوروہ نہیں چاہتے کہ پاکستان میں ایسانظام نافذہوجائے ،کیونکہ پھران بدعنوان، چوراورڈاکووں کاکچھ کام نہیں ہونے والا۔اس سلسلے میں جمعیت علماء اسلام کی واضح عداوت، حسد اورنفرت قابل ذکرہے، جن کے اکثر مولویوں نے عمران خان پر یہودی ایجنٹ کے فتوے لگائے اوراسلام پراپنی اجارہ داری کے دعوے کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کو گمراہ قراردیا۔
حالانکہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں انکادورحکومت سب کے سامنے ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ خیبرپختونخواہ میں تباہی اوربربادی کاآغاز اسی دورسے ہواتھا۔اس دورمیں کرپشن اوربدعنوانی خوب عروج پرتھی اورتمام امورسیاسی اپروچ کے ذریعے حل ہوتے تھے اورتمام حکومتی وسائل اقرباپروری کی بنیاد پر تقسیم ہوتے تھے۔آج مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول یادآرہاہے کہ آدمی کی نمازاورروزے پر نہ جاوبلکہ اس کی سچائی اورکردارکو دیکھو۔ مولویوں کاعمران کے خلاف یوں زہراگلناا س بات کاثبوت ہے کہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں 2013کے الیکشن سے پہلے بہ ظاہر جمعیت علماء اسلام کی واضح اکثریت متوقع تھی اورصوبے میں مکمل طورپر انکی حکومت بنناتھی ، جس بات کااشارہ کئی دفعہ مولانافضل الرحمن نے دیاتھا
لیکن جب انکے مقابلے میں پی ٹی آئی نے واضح اکثریت حاصل کی اورانکے قبل ازوقت دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے توانہوں نے عمران خان کے خلاف یہ مہم چلائی ، لیکن آج حالات نے یہ ثابت کردیاہے کہ عزت صرف اورصرف اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اورپوری دنیااگرکسی کو ذلیل کرنے پرلگ جائے اوراللہ کاارادہ نہ ہوتووہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔میں پوری پاکستانی قوم سے اپیل کرتاہوں کہ اپنے اوپر رحم کرو، اپنے ملک کے ساتھ محبت کرواوراس غلط نظام کے خلاف اٹھ کھڑے ہو۔کیونکہ عمران خان امیدکی واحد کرن ہے۔