تحریر: اے حق۔لندن پاکستان کی سیاست میں عمران خان کی شمولیت کے بعد نئی نئی چیزیں دریافت ہونا شروع ہو گئی ہیں۔جلسوں کے انداز بدل گئے ہیں لوگوں کے مزاج بدل گئے ہیں ۔پہلے پہل خا موش جلسے ہوا کرتے تھے لیکن اب جلسے DJ(میوزیشن)کے بغیر نہیں ہوتے۔سیاسی پارٹیوں کے پُرانے پاپی ہوں یا مذہبی انداز کی سیاسی پارٹیاں سبھی سپیکروں پر کُچھ نہ کُچھ لگا کر ہی جلسہ کرتے ہیں۔ سال 2014ء میں جتنے بھی جلسے ہوئے میرا خیال ہے کہ شاید پاکستانی تاریخ میں کسی بھی سال اتنے جلسے نہیں ہوئے ہوں گے اور ابھی یہ سال ختم ہونے میں ایک ماہ سے زائد عرصہ باقی ہے۔ عمران خان کی 30 نومبر کی کال کے بعد نجانے جلسوں میں کس قدر شدت آنے والی ہے۔
آجکل میڈیا پر اس بحث نے بھی شدت اختیار کر رکھی ہے کہ جلسہ کسی بھی پارٹی کا ہو لیکن نازیباں زبان کے استعمال کو کسی طرح روکا جائے۔مسلم لیگ ن ہو،پیپلز پارٹی ہو،ایم کیو ایم ہو یا پھر تحریک انصاف اور اس کے علاوہ باقی تمام پارٹیاں بھی کسی نہ کسی طرح نازیباں زبان کا استعمال کرنے میں پیش پیش ہیں۔عمران خان کے گوجرانوالہ میں ہونے والے جلسے سے قبل مسلم لیگ ن کے جیالوں نے قیمتی جوتیاں، قیمتی انڈے اورقیمتی ٹماٹر اکٹھے کر لئے تاکہ وہ عمران خان کا پُر تکلف استقبال کر سکیں۔میڈیا کے اس معاجرے کے بارہ میں پوچھنے پر ن لیگ کے جیالوں نے بتایا کہ تحریک انصاف والے ہمارے لیڈروں کے بارہ میں انتہائی نازیباں الفاظ کا استعمال کرتے ہیں
PML-N
اس لئے ہم نے یہ قیمتی سامان اکٹھا کر رکھا ہے۔شیریں مزاری کے اس بیان پر خوشی ہوئی کہ یہ قیمتی سامان مسلم لیگ ن والوں کو غرباء میں تقسیم کرنا چاہئے تھا تاکہ گوجرانوالہ کی غریب عوام کو کُچھ تو ریلیف ملتا۔خیرمیں اُن جیالوں سے یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جب شہباز شریف نے زرداری صاحب کے بارہ میں نازیباں الفاظ استعمال کئے تھے تب بھی مسلم لیگ کے جیالوں نے جوتے اکٹھے کر لئے تھے تاکہ وہ شہبا ز شریف کو ماریں؟یا جب حمزہ شہباز نے اپنے جلسے میں تحریک انصاف کے بارے میں نازیباں الفاظ کا استعمال کیا تھا تب اُن جیالوں نے ٹماٹر اکٹھے کر لئے تھے تاکہ حمزہ کو ٹماٹر ماریں؟
یا پھر جب نواز شریف صاحب نے پیپلز پارٹی،تحریک انصاف اور دیگر تمام پارٹیوں کے بارہ میں باری باری مختلف جلسوںمیں نازیباں الفاظ استعمال کئے تھے تب بھی مسلم لیگ کے جیالوں نے انڈے اکٹھے کر لئے تھے تاکہ میاں محمد نواز شریف کو انڈے ماریں؟جی نہیں!!!جناب ایسا نہیں ہوا تھا۔میں تحریک انصاف کا حمایتی نہیں بلکہ ایک آزاد صحافی ہوں اور اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ نازیباں الفاظ کا استعمال تو قطعی غلط اور غلیظ عمل ہے چاہئے کوئی بھی کرے۔اسے روکنے کی کوشش کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ انڈے،جوتے اور ٹماٹر اکٹھے کر لئے جائیں۔مسلم لیگ ن کے جیالے یہ بتائیں کہ اگر ایک کُتا بھونکتا ہو تو کیا اُس کُتے کے پیچھے پیچھے”وئو وئو”یعنی بھونکنا شروع کر دینا چاہئے؟
اگر ایسا نہیں ہے تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ آپکے پارٹی لیڈران کس قسم کے نازیباں الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔اصولی طورپر آئین میں اس بات کی ترمیم بھی کرنی چاہئے کہ اگر کوئی بھی سیاسی پارٹی کسی دوسرے سیاسی لیڈر کے بارہ میں نازیباں الفاظ کا استعمال کرے تو اُس پارٹی کے جلسوں اور تمام پروگرامز پر 6ماہ کی پابندی لگائی جائے۔
میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہر سیاسی شخصیت چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی دوسرے سیاسی لیڈر سے کتنا ہی ناراض کیوں نہ ہو۔ایک دوسرے کو صاحب ، صاحب کہہ کر بُلایا کریں گے۔ جلسوں میں تقریریں کرنے سے پہلے بار بار سوچا کریں گے کہ غلطی سے بھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہ نکلے جو نازیباں ہو۔اسی طرح آہستہ آہستہ ہمارے سیاستدانوں میں سے نازیباہ لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا ورنہ اس بگڑے ہوئے آوے کا کوئی حل نہیں۔