تحریر : قادر خان ایک بار پھر اجمل خٹک کی برسی خاموشی سے گذر جائے گی۔پاکستان کے ایک سیاست دان جو شاعر بھی تھے ، ادیب بھی اور قوم و ترقی پسند لیڈر بھی ، اکوڑہ خٹک میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے اجمل خٹک کے والد حکمت خان بھی قومی کاموں میں پیش پیش رہتے تھے ، شائد یہی وجہ تھی کہ اجمل خٹک اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے قومی خدمت کو اپنا نصب العین بنا لیا ۔ ریڈیو پاکستان میں بطور سکریپ رائٹر اور پشاور کے ایک نجی اخبار میں کافی عرصہ ایڈیٹر رہے۔نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری جنرل خان عبد الولی خان کی صدرات میں منتخب ہوئے ، 1973میں ذوالفقار علی بھٹون کی حکومت نے جب نیب پر پابندی لگائی اور کئی رہنمائوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تو بابا اجمل خٹک افغانستان ہجرت کرگئے دوسری روایت کے مطابق لیاقت باغ میں بھٹو دور میں جب جلسے میں فائرنگ ہوئی اور خان عبد الولی خان پر گولیاں چلائیں گئیں تو ایک کارکن گولیاں لگنے سے ان کے سامنے دم توڑ گیا ۔اس واقعے نے ان پر گہرے صدمے کے نقوش ثبت کئے اور 17سالہ جلا وطنی کا سبب بھی یہی واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔ جلا وطنی کی زندگی بسر کی ، سوویت یونین کی تحلیل اور افغانستان میں اپریل1989میں شکست کے بعد ترقی پسند و قوم پرست رہنما واپس بے نظیر بھٹو کے عہد میں پاکستان واپس آکر سیاست میں حصہ لینے لگے ،1990تا 1993تک قومی اسمبلی کے رکن قومی اسمبلی رہے ۔مارچ 1994میں 6سال کیلئے صوبہ سرحد ( خیبر پختونخوا) سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے۔
اجمل خٹک بابا کافی عرصہ علیل رہے اور 7فروری 2010ء کو پشاور کے ایک مقامی ہسپتال میں انتقال کرگئے ۔ انھوں نے اپنے آخری ایام عملی سیاست سے دوری اور اپنے آبائی گائوں اکوڑہ خٹک میں گذارے۔انتقال کے وقت ان کے عمر85برس تھی ۔ انھوں نے اردو اور پشتو دونوں زبانوں نے عمدہ شاعری کی۔جمل خٹک کی اردو شاعری کا پہلا اور ہنوز آخری مجموعہ جلا وطن کی شاعری کے نام سے چھپا ہے۔ لمحۂ موجود تک اس کے دو ایڈیشن منظر عام پر آ چکے ہیں۔ مئی 1990ء میں اس کا پہلا ایڈیشن چھپا۔ ستمبر 1997ئمیں اس کا دوسرا ایڈیشن یونیورسٹی بک ایجنسی نے پشاور میں طبع کروایا، جو 171 صفحات کو محیط ہے۔ اس ایڈیشن میں 42 نظمیں، ایک غزل، قطعہ اور چند فردیات شامل ہیں۔ اجمل خٹک بابا کی سیاست ، شاعری ، ادین اور شاعری کا سفر 50برس کے قریب محیط ہے۔ان کی سیاسی زندگی کا سفر انگریزوں ے خلاف تحریک آزادی سے شروع ہوا اور “انڈیا چھوڑ دو”میں با حیثت طالب علم تحریک میں حصہ لینے کی پاداش میں انھیں اسکول سے بھی نکال دیا گیا تھا۔انھوں نے خدائی خدمت گار کی حیثیت سے باچا خان بابا کی تحریک کے پلیٹ فارم سے جنگ آزادی اور صوبہ سرحد سے انگریزوں کو نکالنے کی تحریک سے آغاز کیا۔
اجمل خٹک بابا پشتو و اردوزبان کے ایک نامور انقلابی شاعر تھے ان کے مجموعی طور پر13 کتابیں جس میں اردو زبان میں لکھی جانے والی کتب بھی تھی شائع ہوچکی ہیں ۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ”دی غیرت چغہ”( غیرت کی چیخ) کتابی شکل میں 1958میں شائع ہوا۔جس پر بعد میں پاکستان اور افغانستان میں پابندی بھی لگا دی گئی تھی۔ 2000ء میں بابا اجمل خٹک کو عوامی نیشنل پارٹی سے سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف سے علیحدگی میں ملاقات کی وجہ سے پارٹی سے نکال دیا گیا ۔تاہم اجمل خٹک بابا اس کی دوسری وجہ بتاتے ہیں کہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے تھا ، شائد اس وجہ سے انھیں نکالا گیا۔پارٹی سے نکالے جانے کے بعد انھوں نے ایک نئی سیاسی جماعت بناکر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا لیکن ان کی جماعت کو پزیرائی نہیں مل سکی۔ تاہم کچھ عرصہ بعد عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں نے انھیں مناکر دوبارہ شامل کرلیا ، لیکن اجمل خٹک بابا کا دل ٹوٹ چکا تھا اور وہ آہستہ آہستہ کنارہ کش ہوتے جارہے تھے ۔ اجمل خٹک بابا نے جہاں سیاست میں اپنا لوہا منوایا وہاں اردو زبانوں کے کئی اخبارات اور رسائل کے مدیر رہ کر بھی اپنے وجود کو ثابت کرتے رہے ، روزنامہ انجام ، شہباز ، عدل رہبر اور بگرام جیسے معروف جریدوں میں بطور صحافی منسلک رہے ، اجمل ختک بابا کا سیاسی فلسفہ ترقی پسند ی تھادو بار عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر اور باچا خان بابا اور ولی خان بابا کے قریب ترین ساتھیوں میں ان کا شمار کیا جاتا رہا ہے۔
Life
ان کی زندگی کے کچھ گو شوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے معروف ادیب وکالم نگار سعداللہ جان برق لکھتے ہیں ”بیمار ہوئے تو یوں لگا جیسے انھیں کوئی جانتا تک نہیں تھا صرف چند ان جیسے ملنگ شاعر ہی تھے جو ان کا حلقہ احباب رہ گئے تھے، جس کاز کیلیے انھوں نے آغاز جوانی میں ہی زنجیریں پہن لی تھیں ان کو یاد بھی نہیں رہا۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک دن ہم دس بارہ برس کی عمر میں اپنے دادا کے ساتھ بپی تھانے گئے، دادا تو اپنے کام سے اندر گئے ہم حوالات میں ایک جھاڑ جھنکار والے مخنی سے آدمی کو دیکھنے لگے جو سنتری کے کہنے کے مطابق پاگل تھا، ہمارے حافظے میں اس پاگل کی تصویر نقش ہوگئی اس وقت ہمیں سیاست سے نہ کوئی آشنائی تھی نہ شعر وادب سے۔ کئی سال بعد جب اجمل خٹک سے ملاقات ہوئی تو کوئی احساس نہیں ہوا وہ تو جب ہم نے ان کی کتاب”کیا میں پاگل تھا” پڑھی تو اس میں بپی تھانے میں اپنی پٹائی اور اذیتوںکا جو ذکر کیا ہے اس سے ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ پھر ان سے پوچھا کچھ سن وسال ملائے تو جس پاگل کو بپی تھانے میں دیکھا تھا انھوں نے بتایا ہاں وہ میں ہی تھا،اصل میں اجمل خٹک کو سزا ملنی ہی چاہیے وہ شاعر بنا،مجنوں بنا،مفرور بنا، شاہان وقت کی صحبت میں رہا سیاہ و سفید کھیلا مگر وقت اور زمانے کا نبض شناس نہ بن سکا لوگوں اور چہروں کو پہچاننے کا سلیقہ نہ سیکھ سکا۔ بعد ازاں افغانستان چلے گئے وہاں حکمران سر داؤد خان نے ان کو ہاتھوں ہا تھ لیا ہر فیصلے میں انکو مشیر خاص بنایا، وہ کیا کچھ نہیں کما سکتے تھے اپنے کسی بیٹے کو ایک پرمٹ ہی دلا دیتے تو وارے نیارے ہو جاتے ہم نے خود وہاں ان کی قدر و منزلت دیکھی ہے لیکن ملنگ تخت شاہی پر پہنچ کر بھی ملنگ ہی رہا “۔
اجمل خٹک اپنی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں کہ اتنی بات سمجھ میں آئی کہ جب ان نغموں کو اقتدار’دولت اور سونے چاندی کی قبروں کے فربہ مجاوروں نے سنا تو ان کی پیشانیوں پر بل پڑ گئے وہ تما م عمر غربت اور افلاس کے مارے لوگوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کرتے رہے’ جدوجہد کے مقصد کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ۔ غٹان غٹان’نیکان نیکان پیدا دی دوی خو لہ زایہ جنتیان پیدا دی زی ھغہ خوارو لہ جنت اوگٹو سوک چہ لہ مورہ دوزخیان پیدا دی ترجمہ۔ بڑے لوگ تو ہمیشہ ماں کی کوکھ سے نیک’ پاک اور جنتی پیدا ہوتے ہیں۔آؤ ان غریبوں کے لئے جنت کمائیں جو ماں کی کوکھ سے دوزخی پیدا ہوئے ہیں’ہم اسی مقصد کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ غربت کے مناظر دیکھ کر اپنی نظم”فریاد” میں خدا سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ۔ ستا د جنت د نعمتونو نہ زار زہ درتہ اوگی پہ جہان ژاڑم ستا د دوزخ لہ لڑمانو توبہ زہ درتہ دا ”لڑمانان”ژاڑم ترجمہ۔ یہ صحیح ہے کہ تیری جنت میں ہر قسم کی نعمتیں ہوں گی لیکن میں تیری توجہ دنیا کے غریبوں کی طرف دلانا چاہتا ہوں۔تیری دوزخ کے بچھوؤں سے پناہ مانگتا ہوں لیکن میں تیری توجہ دنیا کے ان بچھوؤں کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔ دلتہ د گیڈے دوزخ تش گرزوؤ ھلتہ شو ستا د دوزخونو خشاک دلتہ ددغہ قصابانو خوراک ھلتہ د ھغہ خامارانو خوراک ترجمہ۔ دنیا میں غریبوں کی پیٹ کی دوزخ ہمیشہ خالی رہتی ہے۔وہاں جاکر وہ دوزخ کی خوراک بن جائیں۔دنیا میں سرمایہ دار اور جاگیر دار قصابوں کی طرح غریبوں کا گوشت نوچتے ہیں اور آخرت میں دوزخ کے سانپ ان کا گوشت نوچیں گے۔
ڈاکٹر عبد اللہ جان عابد کہتے ہیں کہ : معروف ترقی پسند شعرا کے ہاں دکھائی دیتے ہیں۔ البتہ ایک معاملے میں اجمل خٹک دیگر ترقی پسند لکھنے والوں سے یوں مختلف ہیں کہ انھوں نے اپنی نظموں کا میڈیم تو اردو رکھا، لیکن لفظ سے لے کر اس کے استعمال تک اس کا فکری ماحول یا جس پیرایے میں انھوں نے اس فکر کو منضبط کرنے کی کوشش ہے، وہ سارے کا سارا مقامی اور اُس معاشرہ سے متعلق ہے، جو ان کے فکر کا مرجع اور مخزن ہے اور یہی اجمل خٹک کی اردو شاعری کا ایک خاص پہلو ہے کہ انھوں نے اپنی فکر اور اس کی ترجمانی میں لوکل کلچر کو جس خوبصورت انداز سے سمویا گیا ہے، وہ اردو شعرا کے مابین ایک انفرادیت کی مثال ہے۔جب ہم اردو زبان کے ترقی پسند شعرا کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فکر میں ترقی پسندانہ حقیقت نگاری کے رویے، حقیقی زندگی میں عدم مساوات اور زندگی کے معاملات کی حقیقی تصویریں تو موجود ہوتی ہیں، لیکن وہاں پر جو کلچر دکھائی دیتا ہے، وہ کسی مخصوص قوم یا تہذیب کا کلچر نہیں ہے وہ براہ راست ”خان “سے مخاطب ہوتے ہیں جو پشتون معاشرے کی استحصالی قوت ہے”۔ اور دھرتی کے محروم انسان میر ے اپنے قصبے کے غریب موچی، نائی، جُلاہا، دھوبی اور ترکھان، لوہار یہ بچارے کسان جن کی پوری نسلیں، زندگی اور گھرانے، خدمت، خواری اور مصیبت خان کے استحصال کے سنگیں پنجے میں سینہ لاکھوں زخم، درد، پکار پر زبان خاموش اس طرح کی کئی مثالیں جلا وطن کی شاعر ی میں موجود ہیں۔