پارسائی کا دعوی

Election

Election

تحریر : طارق حسین بٹ شان

پاکستان کی انتخابی سیاست ہمیشہ دھاندلی کے نعروں میں پناہ گزین رہی ہے۔یہاں پر ہونے والے انتخابات پہلے دن سے ہی متنازعہ رہے ہیں۔عومی رائے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ فیصلہ کرتی ہے کہ کسے پارلیمنٹ میں جانا ہے اور کسے باہر رہنا ہے لہذا نتائج انہی خطوط پر استوار ہوتے ہیں ۔ایک انتہائی مخلص انسان پرویز رشید کی قسمت اسی لئیبے وقعت ہوئی کہ انھیںطاقت ور حلقے پسند نہیں کرتے۔ در اصل انتخابات سے قبل ایسا ماحول تشکیل دے لیا جاتا ہے جس میں کسی خاص جماعت کو صاف شفاف ،ایماندا، محبِ وطن اور صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا کر دیا جاتا ہے اور جھنیں اقتدار سے بے دخل کرنا ہو تا ہے انھیں ملک دشمن ، خائن،بد دیانت اور کرپٹ کہہ کر ان کی بھد اڑائی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ قیامِ ہاکستان سے شروع ہوا تھا اور آج تک اسی طرح رواں دواں ہے۔کبھی ایک جماعت دھاندلی کا شور مچا کر حکومت کیلئے پریشانی کا باعث بن جاتی ہے اور کبھی دوسری جماعت اسی نعرے سے حکومت کا جینا دوبھر کر دیتی ہے جس سے ملکی ترقی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ اگست ٢٠١٤ میں پی ٹی آئی نیجنرل پرویز مشرف کو بچانے کیلئے دھاندلی کے نام پر جو اودھم مچایا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔تین سال تک دھاندلی کا نعرہ پاکستانی ریاست کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہا اور مقتدر حلقے کھلی آنکھو ں سے یہ تماشہ دیکھتے رہے۔

ریڈ زون میں قبریں کھود کر اور سر پر کفن باندھ کر حکومت گرانے کی جو مشق کی گئی تھی وہ نتیجہ خیز تو نہ ہو سکی کیونکہ ایمپائر نے انگلی اٹھانے سے انکار کر دیا تھالیکن اس سے سارا ریاستی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو اس بات کی سزا دی گئی تھی کہ اس نے ایک فوجی جنرل کے خلاف غداری کا مقدمہ کیوں قائم کیاتھا؟پانامہ سے شروع ہو نے والا مقدمہ اقامہ پر اختتام پذیر ہوا۔میاں محمد نواز شریف آئین کے آرٹیکل ٦٣ کے تحت نا اہل قرار پائے اور یوں اقتدار اس جماعت کو منتقل ہوا جس کیلئے سارے پاپڑ بیلے گے تھے۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جسے ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار اپنا کام دکھا کر غائب ہو گے لیکن قوم جو کچھ بھگت رہی ہے اس کا مداوا کیسے ہو گا؟سیاست میں کوئی ایک جماعت تو سدا اقتدارکے سنگھاسن پر برا جمان نہیں رہتی۔اسے ایک نہ ایک دن تو اقتدار کسی دوسری جماعت کے حوالے کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جس طرح اقتدار سونپا اور چھینا جاتا ہے وہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔عوامی رائے کو جس طرح مصنوعی انداز سے بدلا جاتا ہے وہ ایک الگ داستان ہے۔مقبول لیڈرکو پلک جھپکنے میں جیل کی دیواروں کے پیچھے محبوس کر دیا جاتا ہے۔اب قیدِ تنہائی میں اگر اس کی ضد اور اناقائم رہے تو اسے سرِ دار کھینچ کر باقی کسر پوری کر لی جاتی ہے۔

مئی ٢١٠٨ کے انتخابات میں اقتدار کا قرعہ پی ٹی آئی کے نام نکلا تھا لہذا عمران خان ملک کے وزیرِ اعظم بنا دئے گے۔الیکٹیبل کس طرح توڑے گے ،مقدمات کے فیصلے کس طرح صادر کروائے گے ، انتخابی ٹکٹیں کس طرح واپس کروائی گئیں اور ریاستی دبائو سے وفاداریاں کس طرح خر یدی گئیں سب کچھ طشت از بام ہو چکا ہے ۔ آہنی ہاتھوں کی کرشمہ سازی کاکرشمہ سر چڑھ کر بولا لہذا دبائو کی شدت کے سامنے وفاداروں کیلئے میدان میں کھڑا ہونا مشکل ہو گیا لیکن پھر بھی کچھ اہلِ دل اپنی جماعتوں کے ساتھ جڑے رہے۔وفا کے بدلے ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا اور انھیں جس طرح جیلوں کی ہوا کھانی پڑی وہ بھی سب پر عیاں ہے۔اہلِ دل سزائیں بھگتے رہے اور عقوبت خانوں کی رونق بڑھاتے رہے لیکن اس ڈگر سے پیچھے نہ ہٹے جسے وفاداری کی ڈگرکہا جاتا ہے ۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اب بھی کرپشن کے نام پر ان افراد کومو ردِ الزام ٹھہرائیں جو ابتلاء میں اپنی قیادت کے ساتھ جڑے رہے ۔ان کا جرم یہی ہے کہ وہ کھینچی گئی اس لکیر کو پھلانگ کر عمران خان کے کیمپ کا حصہ نہ بنے ۔ایسے افراد کی سزا ان کے خلاف قائم شدہ مقدمات میں تلاش کی جا سکتی ہے۔این آر او کی گردان اسی سزا کا دوسرا نام ہے۔،۔

وقت بد لتا چلا گیا اور جس جماعت کو کھوکھلے نعروں،دروغ گوئی اور جھوٹے منشور کی بنیاد پر اقتدار سونپا گیا تھا اس میں سے کچھ بھی پورا نہ ہو سکا ۔ حبس شدہ ماحول میں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترس گے لیکن ان کی پیاسی زبانوں کو پانی کا ایک قطرہ نصیب نہ ہو سکا۔اپوزیشن پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے میدان میں خم ٹھونک کر نکل پڑی اور حکومت کیلئے مشکلات کا آغاز کر دیا۔اب کل تک جو عمران خان کر رہے تھے آج وہی پی ڈی ایم کر رہی ہے ۔جلسے، جلوس،ریلیاں،لانگ مارچ اور دھرنے روز مرہ کامعمول ہیں جس سے ملک میں جاری کشیدگی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے ۔پارلیمنٹ مچھلی بازار بنی ہو ئی ہے اور قانون سازی نہ ہونے کے برابر ہے۔

سینیٹ انتخابات نے ہلچل مچا رکھی ہے ۔ ۔ اگر صادق سنجرانی کے چیرمین سینیٹ منتخب ہونے کیلئے سولہ ووٹوں نے اپنا قبلہ بدل لیا تھا تو اسے ضمیر کی آواز کہہ کر اس کی بڑی مدح سرائی کی گئی تھی۔اس وقت صادق سنجرانی کی جیت جمہوریت کی جیت قرار پائی تھی اور پورے ملک میں اس کا جشن منایا گیا تھا ۔اس وقت بھی جس جماعت کی اکثریت تھی اسے سینیٹ چیرمین کا عہدہ دیا جا نا ضروری تھا لیکن اس وقت تو کسی نے کسی کی ایک نہ سنی۔صادق سنجرانی نادیدہ قوتوں کی مدد سے چیرمین سینیٹ منتخب ہو گے اور کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔کسی کو خریدو فروخت یاد نہ آئی ،کسی کو وفاداریاں بدلنے کا ادراک نہ ہوا۔کسی کو کوئی پشیمانی نہیں تھی کہ اکثریت کو بزور اقلیت میں بدل دیا گیا۔اپنی فتح پر ڈھونگرے برسائے جا رہے تھے اور اسے بہتر حکمتِ عملی کا نام دیا گیا تھا۔وزیرِ اعظم تو سولہ ووٹوں کی خریدو فروخت کو کرپشن کے خلاف ممبران کی بغاوت سے تعبیر کر رہے تھے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنئے منشور میں شفاف انتخابات کا نعرہ بلند کیا تھا لیکن اس نے ڈسکہ کے حلقہ نمبر ٧٥ کو جیتنے کیلئے جس طرح کی دھاندلی کی ملکی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد پی ٹی آئی کے پاس یہی ایک حلقہ بچا تھا جس میں اس نے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کیلئے ایک ایسی راہ کا انتخاب کیا جو انتہائی بدنماتھی۔دھند کو بہانہ بنا کر١٦ پریذائڈنگ افسران کو جس طرح اغوا کیا گیا اس پر دنیا شسدر ہے۔ ایک ایسی جماعت جو شفاف انتخابات کا نعرہ بلندکرتی تھی اس نے انتخابی عملے کے اغوا کا کارنا مہ سر انجام دے کر سب کو حیران کر دیا۔الیکشن کمیشن نے جس با جرات انداز میں اس سارے ڈرامہ پر اپنا فیصلہ سنایا ہے وہ انتہائی خوش آئیند ہے۔

ووٹ ایک امانت ہے اور اس کا دھونس ،دھاندلی اور دبائو کے بغیرکاسٹ ہونا ضروری ہوتا ہے ۔پی ٹی آئی نے عوام سے اس حق کو چھیننے کی بھونڈی کوشش کی جو اس کے گلے پڑ گئی۔پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔جمہوریت پسند حلقے اس کی مذمت کر رہے ہیں اور دھاندلی کے چھینٹوں نے اس کے اجلی پیشانی کو داغدار کر دیا ہے۔اسے خفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن ترجمانوں کی فوج ظفر موج اب بھی نادم ہو نے کی بجائے اچھل اچھل کراپنی پارسائی کا دعوی کر رہی ہے۔شرمندگی اور پچھتاوا اس کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ فائرنگ، غندہ ازم،قتل و غارت گری اور دھاندلی کے باوجود وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے جبکہ الیکشن کمیشن اسے مجرم گردان کر اس کے خلاف فیصلہ صادر کر چکا ہے۔جیت یا ہار اہم نہیں ہوتی بلکہ اہم بات یہ ہے کہ انتخابی معرکہ صاف اور شفاف ہو لیکن اگر کسی نے اس میں گڑ بڑکرنے کی کوشش کی ہے تو اسے عوام کے غیض وغضب کا نشانہ بننا پڑے گا۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندران اقبال۔۔