پا کستانی سیاست کا اپنا ایک مخصوص مزاج ہے، جس کا اظہار مختلف سیاسی جماعتوں کے نعروں اور اندازِ حکمر انی سے بآٔسانی سمجھا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ افواجِ پاکستان ملکی سیاست کا سب سے مضبوط ادارہ ہیں جس کی اہمیت سے انکار کرنا کسی بھی سیاسی جماعت کیلئے ممکن نہیں ہے۔کسی بھی بحرانی کیفیت میں سیاسی قائد ین جب انتہائی مشکل صورتِ حال سے دوچار ہوتے ہیں تو پھر وہ مدد کیلئے فوج کی جانب ہی دیکھتے ہیں اور یوں فوج اپنے اثرو رسوخ اور انتظامی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ثالثی کا کردرا دا کرتی ہوئی کسی بھی انتہائی پچیدہ مسئلے کو چشمِ زدن میں حل کروا دیتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی سیاست کئی دہائیوں تک بھٹو اور اینٹی بھٹو فیکٹر میں تقسیم رہی ۔ایک طرف پی پی پی ہوا کرتی تھی جبکہ دوسری طرف ساری سیاسی و مذہبی جماعتیں متحد ہو کر پی پی پی کے خلاف اتحاد بنا لیا کرتی تھیں تا کہ پی پی پی کو انتخا بی معرکے میں شکست سے ہمکنار کیا جا سکے۔پاکستانی قومی اتحاد اور اسلامی جمہوری اتحاد اس کی واضح ترین مثالیں ہیں ۔جنرل ضیا الحق، میاں محمد نواز شریف اور جماعت اسلامی اس گروہ کے نمائندہ بنے جو پی پی پی دشمنی کا کیمپ تھا، اور یوں ان کے درمیان فکری دوریاں نے جنم لیا جسے وقت کا بے رحم پہیہ بھی پاٹ نہ سکا۔پی پی پی کے جیالوں کیلئے جنرل ضیا الحق اور اس کے حواریوں کے ساتھ سیاسی جدو جہد کرنا اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ناممکن ہے۔
جیالے سب کچھ سہہ سکتے ہیں لیکن جنرل ضیا الحق کی باقیات کے ساتھ جمہوری جدوجہد میں قدم سے قدم ملا کر چلنا انھیں گورا نہیں کیونکہ ان کے لباس پر انھیں اپنے عظیم قائد ذولفقار علی بھٹو کے خو نِ ناحق کے دھبے نظر آتے ہیں۔پی پی پی در اصل ذولفقار علی بھٹو سے محبت کی انمٹ داستان ہے اور اس داستان کے زندہ کردار وہ جیالے ہیں جھنوں نے اپنی پیٹھوں پر کوڑے کھا کر اس محبت کو تاریخِ عالم میں لازول کیاتھا۔کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص ذاتی اقتدار کی خاطر ان جیالوں کو بھٹو کے قاتلوں سے ہاتھ ملانے پر مجبورکر لے ؟باکل نہیں۔،۔
کہتے ہیں سیاست ممکنات کا کھیل ہوتا ہے جس میں کسی بھی صورتِ حال کو انتہائی مہارت سے اپنے حق میں استعمال کیا جاتاہے لیکن ایسا کرتے وقت اپنے بنیادی موقف سے دستبرداری نہیں کی جاتی۔پاکستانی سیاست کی ایک خا ص نفسیات ہے اور اس نفسیات کو جانے بغیر سیاست کو سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔پی پی پی اور اس کے سیاسی مخالفین کے درمیان خون کی ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے اور پی پی پی کی قیادت اس لکیر کسی بھی حالت میں پاٹ نہیں سکتی کیونکہ اس لکیر کو پاٹنا اس کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کے مترادف ہے ۔ ١٢ اکتوبر ١٩٩٩ کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر پہلی بار یکجا ہوگئیں اور ان کے درمیان میثاقِ جمہوریت کا معاہدہ طے پایا جس میں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے احترام کا وعد تھا۔
یہ ایک ایسی دستا ویز تھی جس نے پاکستان میں جمہوریت کے مستقبل کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن یہ بھی مذکورہ لکیر کو نہ پاٹ سکا ۔جنرل پرویز مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او کا معاہدہ ہوا تو مسلم لیگ (ن) نے پی پی پی کی قیادت پر تابڑ توڑ حملے شروع کرکے این آر او کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دے دیا۔این آر او کے بعد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی راہیں جدا ہوگئیں اور یوں ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا نیا سلسلہ شرع ہوگیا جبکہ پی پی پی نے این آر او کو اپنی جیت سے تعبیر کیا اور یوں پہلی بار پی پی پی اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان ایسا فار مولا طے پایا جسے عالمی طاقتوں کی ضمانت بھی حاصل تھی ۔ اسی این آر او کی بدولت جنرل پرویز مشرف کو فوجی وردی اتار کر انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ١٨ اکتوبر ٢٠٠٧ کو آٹھ سالہ جلا وطنی کے بعد انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پاکستان لوٹیں تو عوام نے ان کا والہانہ استقبال کیا لیکن انھیں ٢٧ دسمبر ٢٠٠٧ کو اقتدار کی خا طر لیاقت باغ میں بے رحمی سے قتل کر کے بھٹو خاندان کی جگہ زرداری خا ندان کو پی پی پی کی قیادت سونپی گئی ۔یہ وہی این آر او ہے جس کے تحت آصف علی زرداری پر قائم سویس مقدمات ختم ہوئے تو مسلم لیگ(ن) نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔سپریم کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف ایک مقدمہ دائر ہوا جس میں سپریم کورٹ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دے کر حکومتِ پاکستان کو سویس حکام کو خط لکھنے کا حکم صادر کر دیا جس پر عمل داری سے معذوری پر یوسف رضا گیلانی کو وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف علی زرداری نے اقتدار کی خاطر رائے ونڈ میں حاضری دے کر اس لکیر کو جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔
اپنے ہاتھوں سے مٹا دیا تو پھر وہ تمام جیالے جن کا اپنے قائد سے محبت کا ایک خا موش عہد تھا اس عہد سے آزاد ہو گئے اور یوں پی پی پی پنجاب میں بالکل ناپید ہو گئی۔اب حالت یہ ہے کہ وہ صوبہ جہاں پی پی پی ملک کی سب سے مضبوط جماعت ہوا کرتی تھی اب قصہِ پارینہ بن چکی ہے اور اس کے کارکن ڈوھنڈے سے بھی نہیں ملتے۔بات یہی پر ختم ہو جا تی توشائد پی پی پی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر لیتی لیکن مسلم لیگ (ن) کی ناز برداری میں جب پی پی پی کی قیادت اپنی حدوں کو پھلانگتی چلی گئی تو پھر پی پی پی بھی سمٹتی چلی گئی اور اب اس کی جو حا لت ہے وہ سب کے علم میں ہے۔،۔ ٢٠٠٨ کے انتخابات کے نتیجے میں پی پی پی بر سرِ اقتدار آئی تومسلم لیگ (ن) اس کے ساتھ شریکِ اقتدار بنی اور یوں کابینہ نے جنرل پرویز مشرف سے حلف اٹھایا، لیکن ایک شخص جس نے اپنے ضمیر کے تحت جنرل پرویز مشرف سے حلف اٹھا نے سے انکار کیا وہ جاوید ہاشمی تھے۔
General Pervez Musharraf
اصولی موقف تو یہ ہونا چائیے تھا کہ جس جنرل کے خلاف مسلم لیگ(ن) سالہا سال سے تحریک چلا رہی تھی اس سے حلف اٹھا نے سے معذرت کرلیتی تو اس کا قد بڑھ جاتا لیکن اقتدار کاجھولا جھولنے کی خواہش کے سامنے یہ خواہش پانی کا بلبلہ ثابت ہوئی ۔پی پی پی اقتدار میں آگئی تواس نے جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور تو کیا لیکن انھیں گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا جس پر مسلم لیگ (ن) نے سخت تنقید کی ۔وقت کا پہیہ چلتا رہا تاآنکہ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی میں ججز کی بحالی پر تنازعہ کھڑا ہو گیا جس کے بعد مسلم لیگ (ن) نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تو پنجاب پر گورنر راج نافذ کر دیا گیا جس کے ردِ عمل میں مسلم لیگ (ن) نے اسلا م آباد پر لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔
ہ لانگ مارچ گوجرانوالہ پہنچا تو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مداخلت پر ججزبحال ہوئے جس کی اطلاع خود جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتزاز احسن کو دی ۔ مجھے یہ ساری تفصیلات لکھنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ٢٨ اگست کو اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ آپ نے آرمی چیف کو ثالثی کا حق دے کر جمہوریت کا خون کیا ہے جس کی ہمیں توقع نہیں تھی۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو اگر میاں محمد نواز شریف نے کوئی ذمہ داری سونپی تھی تو اس پر سیخ پا ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پی پی پی کی اپنی حکومت میں ججز بحالی کیس میں چیف جسٹس کی بحالی کا اعلان جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ہی کیا تھا۔
فوج پاکستان کی ہے اور جب پی پی پی فوج کو ثالث بناتی اور اس کے ساتھ این آر او کا معاہدہ کرتی ہے توخورشید شاہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتے لیکن اگر یہی کام میاں محمد نواز شریف کرتے ہیں تو ان پر سخت تنقید کی جاتی ہے ۔اگر جنرل راحیل شریف اس ملک کو موجودہ بحران سے نکا لنے کیلئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کیلئے تیار تھے تو خورشید شاہ کو خوش ہونا چائیے تھا کہ ملک بحران سے نکل جائیگا ۔ فوج پر تنقید کرنے کی بجائے انھیں میاں نواز شریف کو اس بات پر قائل کرنا چائیے تھا کہ ٢٠١٣ کے انتخابات دھاندلی زدہ انتخابات تھے لہذا نئے انتخابات کا اعلان کر کے جمہوریت کو بچایا جائے۔
کمال یہ ہے کہ ان انتخابات کو سب سے پہلے آصف علی زرداری نے دھا ندلی زدہ انتخابات قرار دیا تھا لیکن خورشید شاہ نے نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایک انتہائی جذباتی تقریر کر کے ملک کو ایک دفعہ پھر بحران کے حوالے کر دیا ہے جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑیگا۔وزیرِ اعظم کا استعفی کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی اور اگر استعفی سے جمہوریت بچ سکتی تو اسے فوج کی ثا لثی کہہ کر باعثِ نزاع نہیں بنانا چائیے۔۔