تحریر : سالار سلیمان آپ کو زندگی میں ایک مرتبہ زمین ڈاٹ کام کے ورکنگ ماڈل کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ یہ ایک معمولی سی ویب سائٹ تھی جو کہ لاہور کے دو نوجوانوں نے ایک کمرے میں بنائی۔ دنیا جہاں نے اُن کا مذاق اُڑایا اور ہر وہ طریقہ آزمایا جوہماری منافقانہ معاشرت کا حصہ ہے۔ ہم ایسے کنویں میں رہنا پسند کرتے ہیں جس میں کوئی بھی بندہ باہر سے نہ اندر آ سکے اور نہ ہی اندر سے باہر جا سکے اور جو بھی کوئی یہ جسارت کرتاہے، ہم اُس کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھاتے ہیں۔ آپ پاکستان کے تمام کامیاب افراد کا ڈیٹا اُٹھائیں، اس کا تجزیہ کریں، میں یقین سے کہتا ہوں کہ آپ اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ کامیاب افراد اصل میں اس ملک کے ہیرو ہیں ۔ انہوں نے معاشرے سے ، اس سسٹم سے، اس کی فرسودہ روایا ت سے لڑ کر یہ کامیابیاں حاصل کی ہیں ۔یہ دونوں نوجوان بھی دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات کے فارغ التحصیل تھے، یہ چاہتے تو باہر رہ کر ڈالرز اور پاؤنڈز چھاپتے،ریٹائرمنٹ پلان کرتے اور باہر ہی پرسکون زندگی گزارتے لیکن اُنہوں نے دوسرا آپشن لیا، یہ ایک مشکل اور بظاہر نا ممکن آپشن تھا، ان دونوں نوجوانوں نے اس کو کرنے کا بیڑہ اُٹھایا اور آج دس سال کے بعد میں یہ بات وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ دونوں نے کمال کر دیا ہے۔ وہ معمولی سی پراپرٹی ویب سائٹ جو کہ ایک چھوٹے سے کمرے سے شروع ہوئی تھی، آج پاکستان کی سب سے بڑی پراپرٹی کی ویب سائٹ ہے۔
میں نے ایک مرتبہ اُن کے سی ای او ذیشان علی خان سے پوچھا تھا کہ یہ ادارہ اتنا کامیاب کیوں ہے؟ انہوں نے کہا تھا کہ ہم پہلے انتھک محنت کرتے تھے اور آج بھی کر رہے ہیں،میں دفتر ہمیشہ نو بجے سے پہلے پہنچ جاتا ہوں اور یہ نیچے کے سارے عملے کیلئے ایک تحریک ہوتی ہے کہ وہ بھی بر وقت پہنچے ۔ میں نے اس کے بعد ایک اور کام کیا، میں نے ملک بھر کے تمام اہل افراد کو ڈھونڈ کر اپنی کمپنی میں جگہ دی، میں نے اُن کوبھر پور پرواز کا ماحول فراہم کیا اور اُنہوں نے بھی کبھی مجھے مایوس نہیں کیا۔ اب آپ کے سامنے ہے کہ زمین ڈاٹ کام اس وقت پاکستان کی سب سے معروف اور حقیقی معنوں میں بڑی ویب سائٹ ہے۔زمین ڈاٹ کام اب ایک ویب سائٹ نہیں ہے، یہ ایک مکمل ادارہ ہے۔ اس میں مختلف شعبہ جات ہیں اور تقریبا ۱۲۰۰ سے ۱۴۰۰لوگ یہاں ملازمت کر رہے ہیں۔
میری اگلی ملاقات اس کمپنی کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر ابراہیم سہیل سے تھی۔میرا خیال تھا کہ کوئی چالیس سال سے اوپر کا فرد ، جس کی توند نکلی ہوگی، سر کے بال غائب ہونگے اور مزاج میں فرعونیت ہوگی، مجھ سے ملاقات کیلئے آئے گا لیکن میرا یہ خیال اُس وقت غلط ثابت ہوا جب مجھ سے ملاقات کیلئے آنے والا ایک نوجوان تھا،اُس نے مسکراہٹ کے ساتھ کمرے کا دروازہ کھولا، پانچ منٹ دیر سے آنے پر معذرت کی اور سیدھے سادھے سے انداز میں مجھے اپنے سوالات کے جوابات دینے لگ گیا۔ ابراہیم کا کہنا تھا کہ اس کمپنی کا پہلا ایکسپو 2014ء میں منعقد ہوا تھا، میں اُس وقت اس ادارے کے میگزین کا ایڈیٹر تھا۔ میں چونکہ کمپنی کے باسز کے قریب کام کر رہا تھا، اللہ کا کرم ہوا اور اسی دوران میں کمپنی کی توسیع کا فیصلہ ہواتو مارکیٹنگ کے حوالے سے نگاہ انتخاب مجھ پر آئی ۔ مجھے مارکیٹنگ ڈائریکٹر کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ جس تین منزلہ دفتر میں آپ ابھی موجود ہیں یہ تو ابھی ہم نے لیا ہے، اس سے قبل ہم اس سے چھوٹے دفتر میں تھے، جیسے جیسے عملہ زیادہ ہوتا جا رہا ہے ‘ ویسے ہماری ضرورتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے بعد ہم نے 2015ء میں ایک ایکسپو کیا ۔ چونکہ ہمیں عوام الناس اور ایکسپو کے شرکاء سے بہت اچھااور مثبت ردعمل ملتا تھا تو ہم ہر سال ہی ایکسپو منعقد کرتے اور کامیاب کرتے۔ ہمارے ایکسپو ز ہماری ایک اور پہچان بن گئے۔
PPS
اب تو ایسا ہوتا ہے کہ ایک شہر کے پہلے ایکسپو میں ہی بہت سے ادارے اگلے ایکسپو کیلئے جگہ کی بکنگ کروا لیتے ہیں۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ ایکسپو کا فائدہ کیا ہے۔ اُن نے جو عرض کیا اُس کا اختصار یہ تھا کہ آج کے دور میں پراپرٹی خریدنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور لوگوں کو جب ایک ہی چھت کے نیچے تمام آپشنز اور موقع پر ہی ڈیل کی سہولت ملتی ہے تو وہ اس آسانی کی وجہ سے ایکسپوز میں شرکت کرتے ہیں۔ زمین اب پاکستان پراپرٹی شو کے نام سے دبئی میں ایکسپو منعقد کر رہی ہے ۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ اس حوالے سے کیا تیاریاں ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ اعداد و شمار تو ایکسپو کے بعد ہی سامنے آئیں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ ایکسپو بھی کامیاب ہوگا۔ اس کے قبل کسی نے بھی پاکستان کے حوالے سے مخصوص ایکسپو نہیں کیا ہے ، ہم یہ پہلی مرتبہ کر رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں گے۔کام میں مشکلات کے حوالے سے اُن کے چہرے پر ایک مسکراہٹ نمودار ہوئی ، اُن کا یہ جواب حقیقتاً سمجھنے اور عمل کرنے کے قابل ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ دیکھیں ، کاموں میں مشکل کہیں بھی اور کبھی بھی آ سکتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بہانے بنائے جائیں یا راہ فرار تلاش کی جائے۔ انسان تو پیدا ہی جہد مسلسل کیلئے ہوا ہے۔ہمیں بھی مشکلیں پیش آتی ہیں لیکن ہم مسلسل محنت سے ناممکن کو ممکن کر دیتے ہیں۔ آپ مسلسل محنت کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ اللہ آپ کی نہ سنے۔ آپ خود سوچیں کہ جب انشااللہ اکتوبر میں اُس دبئی میں جہاں تقریباً پوری دنیا کے لوگ بستےہیں، اُس کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں زعبیل ہال پر بڑے اور جلی حروف میں ’’پاکستان پراپرٹی شو‘‘ لکھا ہوگا تو کیا ہمارا اور پورے پاکستان کا سینہ فخر سے چوڑا نہیں ہوگا؟ یقیناً ہوگا،یہی ہماری کامیابی اور محنت کا پھل ہوگا۔
پاکستان میں کام کرنا مشکل ضرور ہے ، یہاں کام کرنا انتہائی مشکل بھی ہے ، لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ اس ملک میں یہ بات بالکل درست ہے کہ کم ہمت لوگوں کیلئے یا مشکلات اور حالات سے گھبرانے والوں کیلئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ۔ یہ مشکل تالاب ہے اور تیرنا بہرحال اسی میں ہے، اُس وقت تک جب ہم اپنا تالاب خود ٹھیک نہیں کرتے ہیں۔