اسلام آباد (جیوڈیسک) ملک کی آبادی ایک اندازے کے مطابق 19 کروڑ تک پہنچ چکی ہے لیکن گزشتہ 16 سال سے مردم شماری نہیں کی گئی ، اس کی کیا وجوہات ہیں، کیا موجودہ حالات میں مردم شماری ممکن ہے اور اگر ہو گی تو کتنا عرصہ اور کیا کچھ چاہیئے ؟ آئین پاکستان کے فورتھ شیڈیول کے تحت ملک میں ہر 10 سال بعد مردم شماری کرانا ضروری ہے۔
مردم شماری جہاں پاکستان میں موجود افراد کے بارے میٕں مکمل معلومات فراہم کرتی ہے وہیں اس کی بنیاد پر صوبوں اور فاٹا میں قومی اسمبلی کی نشستوں کی تقسیم ہوتی ہے اور حلقہ بندیاں بھی کی جاتی ہیں۔مردم شماری کی بنیاد پر ہی فنڈز کی تقسیم کے ادارے قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل ہوتی اور وفاقی ملازمتوں میں کوٹے کا تعین کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں آخری بار مردم شماری 1998ء میںکی گئی، اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اس کے بعد 2008ء میں مردم شماری ہونا تھی مگر آج نہیں ہو سکی۔2011ء میں مردم شماری کے پہلے مرحلے کے لیےخانہ شماری کا کام تو کسی حد تک کیا گیا تاہم اعداد و شمار مشترکا مفادات کونسل میں پیش ہوئے تو صوبوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد سے یہ معاملہ ٹھپ ہی پڑا ہے۔
حکام کے مطابق گھر گھرمردم شماری کے لیے مجموعی طور پر ایک ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے، یہ عمل ملک بھر میں ایک ہی وقت پر کیا جانا ضروری ہوتا ہے جو آپریشن ضرب عضب،آئی ڈی پیز کے مسئلے،بلوچستان،کراچی اور مختلف علاقوں میں امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث انتہائی مشکل نظر آتا ہے۔
1998 ء کی طرز پر مردم شماری کے لیے فوج کی خدمات حاصل کرنے کی تجویز ہے جس کے لیے ڈھائی لاکھ فوجی درکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق موجودہ صورتحال میں فوج نے اتنی بڑی افرادی قوت فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے۔ مردم شماری کے لیے 2 لاکھ 5 ہزار سول عملہ اور 10 سے 11ارب روپے کے فنڈز بھی درکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق ملکی ترقی کی سمت کے تعین کے لیے بلا شبہ مردم شماری ناگزیر ہے لیکن یہ اہم کام گزشتہ 16سال سے نہیں کیا گیا۔ یہ سوال بھی پیداہوتا ہے کہ ملکی حالات کی وجہ سے جو کام برسوں سے نہیں ہو سکا و ہ ملک میں امن و امان کی موجودہ صورتحال میں کیسے ممکن ہو پائے گا۔