اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی لگ بھگ اسی فیصد آبادی مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہے۔
وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ میں ملک میں میسر پینے کے پانی کے معیار کے بارے میں پوچھے گئے ایک سول کے جواب میں کہا کہ سرکاری ادارے ’پاکستان کونسل فار ریسرچ ان واٹر ریسورسز‘ نے ملک بھر میں پانی کے معیار کو جانچنے اور اس کی نگرانی کے عمل کے لیے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ملک کے 24 اضلاع میں واقع دو ہزار آٹھ سو سے زائد دیہات سے حاصل کیے گئے، پانی کے نمونوں کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ بیشتر علاقوں میں پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔
رانا تنویر نے بتایا کہ سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق پانی میں آلودگی کی وجہ جراثیم اور زہریلی دھاتوں کی موجودگی تھی۔
پانی کے وسائل سے متعلق تحقیقاتی ادارے ’پاکستان واٹر ریسرچ کونسل‘ کے سابق سربراہ ڈاکٹر اسلم طاہر نے گفتگو میں کہا کہ پاکستان میں صاف پانی کی فراہمی بلاشبہ ایک مسئلہ ہے۔
“جتنے بھی حالیہ سروے پاکستان میں ہوئے ہیں اس میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ شہروں میں رہنے والے پندرہ فیصد لوگوں کو صاف پانی میسر ہے جب کہ دیہی علاقوں میں صورت حال کچھ بہتر ہے جہاں یہ شرح اٹھارہ فیصد ہے۔ اسی وجہ سے اسپتالوں میں داخل مریضوں میں سے چالیس سے ساٹھ فیصد ایسے لوگ ہیں جو آلودہ پانی پینے سے بیماریوں کا شکار ہوئے ہیں”۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں ہے جو اس بات کو یقینی بنائے کہ لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی دستیاب ہو۔
“عملی طور پر پاکستان میں کوئی ایسی پالیسی نہیں ہے اور نا ہی پانی کی فراہمی کی نگرانی کرنے والا کوئی ادارہ موجود ہے جس طرح دوسرے کئی ملکوں میں ہوتے ہیں۔ جو اس چیز کو دیکھے کیا صاف پانی فراہم ہو رہا ہے اس کے علاوہ پانی کے ترسیل کے پائپوں میں بھی خرابیاں ہیں”۔
وفاقی وزیر رانا تنویر نے ایوان بالا کو بتایا کہ ملک بھر میں پینے کے پانی کے معیار کو جانچے کے لیے چوبیس لیبارٹریاں قائم کر نے علاوہ صاف پانی کی فراہمی کے لیے کے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے سے لوگ ہیضہ، دست اور کئی دیگر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور آلودگی سے پاک پانی کی فراہمی کو یقینی بنا کر لوگوں کو ایسی بیماریوں کا شکار ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔