ایک بادشاہ اولاد ِ نرینہ سے محروم تھا اللہ کے حضور لاکھ دعائوں، منتوں مرادوں کے بعد بیٹا پیداہوا تو بادشاہ نے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔۔ نہ جانے کہاں سے ایک درویش بھی پھرتا پھرات ابادشاہ کے دربار میں جا پہنچااس کے چہرے پر عجب کشش تھی۔۔ وہ بادشاہ کے روبرو پہنچا درویش نے بیٹے کی پیدائش پر مبارک باد اور درازیٔ عمر کی دعا کی درویش کا انداز ایسا تھا کہ بادشاہ نے بے ساختہ کہا۔۔ مانگو کیا مانگتے ہو؟ درویش مسکرایا۔۔ اس نے اپنا کشکول آگے کر دیا اور عاجزی سے بولا بادشاہ سلامت! صرف میرا کشکول بھر دیں۔
”بس۔۔۔بادشاہ نے یہ کہتے ہوئے اپنے گلے سے ہار۔۔ ہاتھ سے ہیرے جواہرات جڑی انگوٹھیاں اور طشتری میں پڑی کتنی ساری شرفیاں کشکول میں ڈال دیں لیکن کشکول بڑا تھا نہ بھرا بادشاہ نے پاس پڑی سونے چاندی سے لبا لب دوسری طشتریاں بھی کشکول میں ڈال دیں لیکن بات نہ بنی بادشاہ نے فوراً شاہی خزانے کے انچارج کو بلایاوہ ہیرے جواہرات سے بھری بوری لے کر حاضرہوا بادشاہ نے بوری کی بوری کشکول میں ڈال دی لیکن جوں جوں جواہرات کشکول میں ڈالے جاتے وہ بڑا ہوتا جاتایہاں تک کہ ہیرے جواہرات سے بھری پوری کی پوری بوری کشکول میں ڈال دی گئی لیکن وہ نہ بھرا۔۔۔بادشاہ کو بے عزتی کااحساس ہوا کہ وہ درویش کا ایک کشکول نہ بھر سکا اس نے خزانوں کے منہ کھول دئیے حتیٰ کہ سارے کا سارا شاہی خزانہ کشکول میں ڈال دیا گیا نتیجہ پہلے جیسا ہی تھا شاہی خزانے کے بعد ورزاء کی باری آئی اس کے بعد درباریوں کی۔۔۔
شہروں کے شہر اور گھروں کے گھر طلائی زیورات ، ہیرے جواہرات سے خالی ہوتے گئے لیکن کشکول نے نہ بھرنا تھا نہ بھرا وہ خالی کا خالی تھا بادشاہ نے احساس ِ ندامت سے ہاتھ کھڑے کرکے اپنی ناکامی کااعتراف کر لیا درویش جیت گیا۔۔اوربادشاہ ہا رگیا۔۔درویش مسکرایا اور جانے کیلئے اٹھ کھڑا ہوا جاتے جاتے اس نے کشکول الٹ دیا دربار میں سونے چاندی ، ہیرے، جواہرات کا ڈھیر لگ گیااس نے سلام کیا اور شاہی محل سے باہر جانے لگا بادشاہ درویش کے پیچ ھے بھاگا ہاتھ باندھ کر عرض کی حضور! مجھے صرف اتنا بتا دیں یہ کشکول کس چیز کا بناہوا ہے؟۔۔۔درویش نے مسکراتے ہوئے کہا نادان!یہ خواہشات سے بناہوا کشکول ہے جسے صرف قبرکی مٹی بھر سکتی ہے یہ کہہ کر وہ یہ جا وہ جا۔۔۔ہم اپنے ارد گرد غور کریں اپنے اور دوسروں کا جائزہ لیں تو احساس ہو گا ہم سب نے ہاتھ میں خواہشات کا کشکول پکڑا ہوا ہے جتنا بڑا کوئی بن بیٹھا ہے اس کے کشکول کا سائزبھی اتنا ہی بڑا ہے۔
مفادات کے حصول کیلئے لالچ ،فریب، دھوکہ، قتل و غارت گری سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا ۔۔۔کبھی کسی نے سوچا ہے ایسا کیوں ہے؟ وسائل کی بہتات، لاکھوں، کروڑوں کی پراپرٹی ، بینک بیلنس اور اچھے کاروبار کے باوجود روحانی اعتبار سے ہم دیوالیہ ہوتے جارہے ہیں اکثر دل سوال کرتا ہے پاکستان جیسی نظریاتی مملکت میں قدم قدم پر ظلم کیوں ہو رہا ہے؟ یہاں ظالم ا تنے طاقتور، بااثر اورصاحب ِ اختیار کیوں ہیں کہ آئین اور قانون بھی ان کے سامنے بے بس ہو گیا ہے اس لئے ہرروز ایک نیا سانحہ جنم لے رہا ہے۔۔ ہررات ظلم کی ان گنت کہانیاں جنم لیتی ہیں۔۔۔ہر سورج مظلوموں کیلئے نیا امتحان لے کر طلوع ہوتا ہے کبھی مظلوم خودسوزی کرتے ہیں لیکن بااثر ملزمان کا کچھ نہیں بگڑتا الغرض سمجھ نہیں آتی ہر قسم کی سماجی قباحتوں اور عجیب رسم و رواجوں اور برائیوں میں جکڑا یہ معاشرہ کب سدھرے گا؟ ہمارے حکمران ہیں کہ روز نیا دعوےٰ کرتے ہیں۔۔
Poverty
ان کے حواری تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے تھکتے نہیں اورمزے کی بات یہ ہے کہ انہیں کوئی شرم بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن عوام کی حالت جوں کی توں ہے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو ہوں صدر ضیاء الحق کا طوطی بول رہاہو بے نظیر بھٹو کی حکومت ہو یا پھر غلام اسحق خان کا دور۔۔ آصف علی زرداری کرسی ٔ صدارت پر جلوہ افروز ہوں یامیاں نواز شریف وزارت ِ عظمیٰ پر فائزہوجائیں غریبوں کے حالت وہی ہیں ان کے حالات بدلنے کا نام نہیں لیتے صرف چہرے تبدیل ہوتے رہتے ہیں نظام وہی رہتا ہے۔۔۔اب سوال یہ پیدا ہونا فطری بات ہے کہ یہ کیسی حکمرانی ہے؟۔۔۔کیسے دعوے؟ کہ غریب لوگ ایک ایک لقمے کو ترسیں، بھوک سے بلبلائیں اور فاقوں سے مرتے جائیں اور گوداموںمیں پڑی گندم میں کیڑے پڑ جائیں۔۔۔غربت سے عاجز مائیں اپنے بچوں کے گلے کاٹنے پر مجبور ہو جائیں یا نئے کپڑے مانگنے پر باپ اپنی لاڈلی بیٹی کو قتل کر ڈالے تو سوچنا چاہیے ایسا کیوں ہو رہا ہے غریبوں کی کمائی لٹ رہی ہے اشرافیہ کے اللے تللے ہیں کہ ختم ہونے میںہی نہیں آ رہے ان کے پیٹ درویش کے کشکول کی طرح بھرتے ہی نہیں۔۔۔ سچ صرف یہ ہے خواہشات سے بناہوا کشکول صرف قبرکی مٹی بھر سکتی ہے۔
جس دور میں لٹ جائے فقیروںکی کمائی اس دور کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
ہمارے آس پاس قدم قدم پر اللہ کی ظاہر نشانیاں موجودہیں ۔۔سوچ و فکرکے در بھی کھلے ہیں۔۔نعمتیں ہیں اس کا حساب ہے نہ شمار۔۔ اس کے باوجود کسی کو مطلق احساس تک نہیں عام آدمی پر کیا بیت رہی ہے اس حال مست ۔۔مال مست بے نیازی کو کیا نام دیجئے لیکن اس کو خود فریبی سے تعبیر بھی کیا جا سکتاہے شاید اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ ان تمام نعمتوں پر صرف انہی کا حق ہے۔۔مال و دولت ، وسائل کی بہتات، لاکھوں، کروڑوں کی پراپرٹی ،بینک بیلنس اوراچھے حالات ان کا کوئی کمال ہے جو قدرت انہیں اس قدر نواز رہی ہے سچ جانیئے! یہ سب کچھ امتحان بھی ہو سکتا ہے۔۔
پاکستان میں غربت، دہشت گردی ، بے روزگاری، مہنگائی ،جسم فروشی اور چوری، ڈکیتی، راہزنی دیگرمسائل کا بڑا سبب دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم ہے جس نے مسائل در مسائل کو جنم دے کر عام آدمی کی زندگیاں تلخ بنادی ہیں پاکستان نصف صدی سے جن چیلنجز سے نبرد آزما ہے ان کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملکی وسائل چند خاندانوں تک محدود ہوکر رہ گئے ہیں یہی لوگ اس وقت پاکستانیوں کی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں۔
اپنے دلوں کو خواہشات کا قبرستان بنانے والوں کیلئے لمحہ ٔ فکریہ ہے۔۔۔قدرت کی ڈھیل ہے یا پھران کی رسی دراز ہے حالانکہ مہلت ختم ہونے والی ہے بہرحال ہر صاحب ِ اختیار کو خلق ِ خداکی بھلائی کیلئے انقلابی اقدامات کرنا چاہییں جانے کب خواہشات کا کشکول دھرے کا دھرا رہ جائے۔
قبر کے چوکٹھے خالی ہیں انہیں مت بھولو جانے کب کون سی تصویر سجادی جائے