غربت(Porerty) کی اصلاح کا تذکرہ عام طور پر کسی انسان یا معاشرے کی بنیادی ضروریات زندگی کے پس منظر میں کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسکے علاوہ بھی غربت کا لفظ مختلف اوقات میں مختلف معنوں میں آتا ہے۔ماہرین غربت کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں، جنگ، قحط اور دیگر آفات کی غیر موجودگی میں اکثریت کی غربت کی اصل وجہ نچلے طبقے کی دولت کا امیروں تک منتقل ہونا ہے یہ دو طرح سے ممکن ہے۔
(1) کرنسی کا قابل تخلیق ہونا (2) فریکشنل ریزرو بینک
اعدادو شمار کے مطابق دنیا کے دو ارب بچوں میں سے ایک ارب بچے غربت کی سطح کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ 64کروڑ بچوں کے پاس سرچھپانے کیلئے چھت نہیں،40کروڑ پینے کے صاف پانی کو ترستے ہیں۔ 21کروڑ طبی سہولیات سے محروم ہیں۔جبکہ ہمارے حکمران گذشتہ نصف صدی سے اسی بحث میں الجھے ہوئے ہیںکہ انہوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان میں غربت میں کمی لانے کے لئے بے تحاشا کام کیا۔ بہر حال یہ ثبوت تو آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ غربت کہاں کم ہوئی ہے؟۔ گدا گروں کی بہتات ،خود کشیاں، پھٹے پرانے کپڑے اور بدحال پاکستانی غربت میں اضافے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ لوگ مہنگائی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں، اور مہنگائی کی ہی بدولت غربت کی شرح بڑھ رہی ہے، اس دور میں غریب کو دو وقت کی کھانے کو روٹی نہیں ملتی ہے۔ جس کی وجہ سے ماں باپ خود اور اپنے بچوں کو مارنے اور قتل کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں، اس مہنگائی کے سبب غریب لوگوں کی گذر بسر ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے اور اس غربت میں مہنگائی کی مالا مرے پر سو دُرے ثابت ہو رہی ہے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب نہ صرف غریبوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔بلکہ متوسط طبقہ کی راتوں کی نیند بھی اُڑ گئی ہے۔ اس مہنگائی کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم نہیں دلوا سکتے ہیں ان کے لئے اپنے گھر کا پیٹ پالنا بھی بہت مشکل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں غربت کی وجہ سے لوگ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی غربت کے حوالے سے ایک ایسی ہولناک سچائی سامنے آئی ہے جس پر یقین کرنا انتہائی مشکل ہے۔ وہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہر تیسرا پاکستانی غربت کی گرفت میں ہے۔ پاکستان کی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ہمارے ملک میں غربت کی شرح میں کمی کی بجائے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان کی نیم سرکاری تنظیم تھنک ٹینک نے پاکستان میں بڑھنے والی غربت پر جاری کردہ تحقیقی رپورٹ سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ لاکھوں پاکستانی مفلسی اور بد حالی کا شکار ہیں۔ وطن عزیز میں در پیش حالات و واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ دور میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہی ہے۔ جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ رہی ہے۔ دوسری جانب دولت کی غیر مساویانہ تقسیم وسائل میں کمی اور بے روز گاری کے جم غفیر نے ایک خوفناک صورت پیدا کر دی ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی مفلسی کا دائرہ کار پھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق غربت میں ہونیوالا مزید اضافہ جہاں ملک کے لئے تشویش کا باعث ہے وہی غربت کا شکار افراد بھی کئی نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، اور اس وقت پاکستان سے غربت کا خاتمہ حکومت کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
پاکستان سمیت دیگر غریب ایشیائی ممالک نے اپنے وسائل کے مطابق اپنی آبادی کی منصوبہ بندی نہیں کی وہ آج بے تحاشا مسائل کا سامنا کر رہے ہیں جن میں بڑا مسئلہ غربت ہے۔ آبادی میں بے تحاشا اور بے ترتیب اضافہ ہونے سے تعلیم اور ہنر کا بھی فقدان ہوتا ہے یورپی اور مغربی دنیا اپنی صنعتی، ٹیکنالوجی اور زرعی پیداوار میں مصروف ہے اور ہم پاکستانی بچوں کی پیداوار میں عالمی دوڑ جیتنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ تو پھر یاد رکھیں اکنامکس کے اصول کے مطابق جس چیز کی پیداوار زیادہ ہو گی اس کی قیمت اور قدر میں کمی واقع ہو گی اسی لئے آج پاکستان میں انسانوں کی (عام انسانوں ) قدر نہیں اور نہ ہی کوئی قابل قدر خدمات کا صلہ ملتا ہے آج پوری دنیا میں شرح پیدائش لگ بھگ 2۔5 بچے ہیں جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایک سے ا۔5 بچے اور پاکستان میں 4۔7 کی شرح سے بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ تو پھر خود ہی اندازہ لگا لیں کہ ہم آبادی کے لحاظ سے کہاں کھڑے ہیں! آبادی کی زیادتی نے تو ہمارا برا حال کر دیا ہے ۔ ہمارے ملک میں رشوت اور سفارش کے رجحان نے بھی جہاں اور بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے وہی غربت کا باعث بھی ہے۔ رشوت اور سفارش کی وجہ سے لوگوں کو کام کرنے کے برابر مواقع حاصل نہیں ہوتے اور اس طرح بھی غربت میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے بیشتر پڑھے لکھے اور ہنر مند افراد ملک چھوڑ کر بیرون ملک مقیم ہو جاتے ہیں جس سے ملکی ترقی کا پہیہ رک جاتا ہے۔ ملکوں کی ترقی فی کس آمدنی اور لوگوں کی قوت سے جڑی ہوتی یے اور ہر آدمی کو برابر مواقع دیئے بغیر ترقی ممکن نہیں ہوتی۔
قدامت پسندی اور فرسودہ مذہبی رجحانات نے بھی غربت میں اضافہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے انہی مذہبی رحجان سے جڑا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ خاندان کا ایک آدمی کما رہا ہے تو باقی سب کھانے والے ہیں اگر خاندان کا ہر ایک فرد اپنے حصے کا کام کرے گا تو ملکی پیداوار میں اضافے کا سبب بنے گا اور غربت میں کمی ہو سکے گی۔
پاکستان میں صحت کے لا تعداد مسائل بھی غربت کی ایک وجہ ہیں تعلیم کے فقدان کے باعث عام آدمی کو صحت کے معاملات کا سرے سے کوئی ادراک ہی نہیں ہے اور ہسپتال، ڈاکٹر اور دوائیں ناپید ہونے سے پاکستان کا ہر دوسرا فرد کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے اور کام کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں غربت کی سطح اس وقت 39 فیصد سے زیادہ ہے، جس میں سب سے زیادہ غربت کی شرح قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں۔ جہاں یہ شرح 39 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ حکومت کی ایک اور رپورٹ کے مطابق فاٹامیں غربت کی شرح 73 فیصد ہے، اور بلوچستان میں یہ شرح 71 فیصد ہے۔کے پی کے میں غربت کی شرح 49 فیصد ہے، جبکہ گلگت بلتستان اور سندھ میں یہ شرح 43 فیصد ہے۔ پچھلی حکومتوں کے دوران غربت کے خاتمے کے لئے اقدامات کئے گئے جن کی وجہ سے غربت کی شرح 55 فیصدسے کم ہو کر 39 فیصد تک کم ہوئی ۔
اس وقت بلوچستان میں 52.23 فیصد افراد غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، خیبرپختونخوا میں غربت کی شرح 34.66 ، سندھ میں 33.16 اور پنجاب میں 21.66 فیصد ہے۔تاہم جہالتکا بھی ہماری مفلسی میں اہم کردار ہے ۔ً ٥٢ فیصدآبادی قطعی بے ہنر ہے، چنانچہ اس کے لیے کسی شعبے میں روزگار کی کوئی ضمانت نہیں لہٰذا وہ صرف جسمانی محنت مشقت کر سکتی ہے، اور اس صورتحال کا سبب پاکستان کے تعلیمی نظام کا بتدریج زوال ہے۔ اپنا نام لکھ لینے اور پڑھ لینے والا خواندہ سمجھا جاتا ہے، چنانچہ کسی بھی مروجہ معیار کے تحت پاکستان کی حقیقی شرح خواندگی اندازاً ٠٥ فیصد ہے۔ یکساں اور معیاری تعلیم کے فروغ کے لیے بھاری سرمایہ کاری درکار ہے، جس کی سمت بھی درست ہو۔ افسوس پاکستانی قوم نے ایک ایسی ریاست میں جنم لیا، جہاں کے دیہی علاقوں میں جاگیر دارانہ عدم مساوات رائج تھی۔ یہ نظام تب سے پھیلتے پھیلتے کاروبار، صنعت اور بیوروکریسی میں سرایت کر چکا ہے۔ امیر اور غریب میں فرق بے انتہا بڑھ چکا ہے۔ پاکستان کا ایک فیصد خوشحال طبقہ دولت کی ریل پیل سے مستفید ہو رہا ہے جبکہ آبادی کا بڑا حصہ غربت کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں اپنے قیام ہی سے پاکستان کو مشرقی سرحدوں پر واقع اپنے سے بڑے ہمسائے کے ساتھ دوطرفہ مخاصمت کا ماحول ملا، چنانچہ پاکستان کے مالی اور ذہنی سرمائے کا بھاری حصہ اپنی سرحدوں کے تحفظ پر صَرف ہوتا رہا۔ بھارت کے ساتھ تین جنگوں، اسلحے کی ختم نہ ہونے والی دوڑ اور افغانستان میں امریکی جنگوں میں شمولیت جیسے مسائل نے پاکستان کے محدود وسائل کو ضائع کر دیا اور اقتصادی و سماجی ترقی پر سے توجہ ہٹ گئی۔ بھارت سے دفاع کا بوجھ کم کرنے کے لیے پاکستان کو تزویراتی اور سفارتی ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جوہری صلاحیت مدد دے سکتی ہے۔
ملک کے بہت سے شہروں اور علاقوں میں عدم تحفظ کی موجودہ صورتحال نے منظم جرائم، مذہبی منافقت، پرتشدد انتہا پسندی اور سیاسی موقع پرستی نے جنم لیا ہے۔ پاکستان میں سلامتی کے بارے میں دنیا بھر میں پائے جانے والے خدشات حقیقی خطرات کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔جب تک تحفظ اور سلامتی کا مسئلہ حل نہیں کیا جائے گا، کوئی بیرونی یا ملکی سرمایہ کاری یا ترقیاتی منصوبے عمل میں نہیں آ سکتے۔ تذبذب، متزلزل عزم اور خوف حکومت کے بدترین دشمن ہوا کرتے ہیں۔
ملک اس لیے غریب ہے کہ ریاست غریب ہے۔ ملک اپنی آمدنی سے زیادہ خرچ کر دیتا ہے چنانچہ یہی حال عوام کا بھی ہے۔ بچت کی رقم اگر گرانی سے زائل ہونے لگے تو بچت کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں ہو گا۔ اگر قومی اور انفرادی سطح پر بچت کو فروغ نہ دیا جائے تو بنیادی ڈھانچے تعلیم، صنعت، چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں میں سرکاری یا نجی شعبے کی طرف سے سرمایہ کاری مستقبل قریب میں مفقود رہے گی۔ پاکستان کو ترقیاتی منصوبوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق غربت کی سب سے زیادہ شرح فاٹا اور بلوچستان میں ہے جبکہ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 فیصد ہے اور دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فیصد ہے۔پاکستان کے قبائلی علاقہ جات یا فاٹا میں 73 فیصد اور بلوچستان میں 71 فیصد افراد غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں 49 فیصد، گلگت بلتستان اور سندھ میں 43 فیصد، پنجاب میں 31 فیصد اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 25 فیصد افراد غربت کا شکار ہیں۔
اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں 10 فیصد سے کم افراد غربت کا شکار ہیں اور اس کے برعکس بلوچستان کے قلعہ عبداللہ، ہرنائی اور برکھان میں 90 فیصد آبادی غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں پاکستان جوان ملک ہونے کا اعزاز رکھتا ہے اور اگلے 30 سال تک اس کا شمار جوان ملک کے طور پرہی ہوگا تا ہم ملکی ترقی کیلئے انسانی وسائل سے بھر پور استفادہ کیلئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کی ضرورت ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 29 سال سے کم ہے جبکہ ملک کی ایک تہائی یعنی 30 فیصد ا?بادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کی عمریں 15 سے 19 بر س کے درمیان ہیں۔۔اقوام متحدہ کے مطابق پاکستا ن ا ئندہ 30 سالوں تک ایک جوان ملک ہی رہے گا جس کے بعد یہ بڑھاپے کی جانب بڑھنا شروع کر دے گا یعنی طاقت، توانائی اور ترقی کے دروازے آ ہستہ آ ہستہ بند ہونا شروع ہو جائینگے۔