تحریر : ایم آر ملک ذرائع پیداوار کی ذاتی ملکیت ایک بند گلی میں داخل ہو رہی ہے دو خاندانوں کی باری کا کھیل اب اختتام چاہتا ہے وزیر داخلہ کا مضبوط معیشت کی وضاحتوں پر ”نو زائیدہ جھوٹ ”آنے والے دنوں میں ملکی فضا پر گہرے سیاسی و سماجی اثرات کی مہر ثبت کرنے کو ہے ”جمہوریت بہترین انتقام ہے ”کا سراب کرپشن کے ستونوں پر کھڑے نظام کو لپیٹنے کے درپے ہے۔
2013کے آر اوز کے انتخابات جس میں عوام کی شمولیت اور حق خود ارادیت کا سراغ نہیں ملتا جمہوریت سے بیزاری کی ایک بڑی وجہ ہے جس کے نتائج بھاری مینڈیٹ کی شکل میں شریف برادران کی” لے پالک بیوروکریسی ”نے مرتب کئے ۔اس دھاندلی زدہ الیکشن نے آج بھی مشتعل محب وطن رائے دہندگان کے لئے ”تخت ِ لاہور ”اور ”تخت ِ اسلام آباد ”کو ایک شکست خوردہ عنوان بنا رکھا ہے ۔وہ حلقے جن کے ساتھ حب الوطنی جڑی ہوئی ہے وزیر داخلہ کے بیان کی نفی کرتے ہیں وہ آئی ایس پی آر کے بیانئے کو ہی پاکستان کا بیانیہ تصور کرتے ہیں شہر اقبالکے ایک ہوٹل میں کام کرنے والی 37سالہ سائرہ کا کہنا ہے کہ ”میں ایسا محسوس کر رہی ہوں جیسے میں اُس طبقے سے تعلق رکھتی ہوں جو ان حالات میں بہت پیچھے رہ گیا ہے میں اُس طبقے سے ہوں جو سخت کام کرنے کے باوجود مشکل سے گزارہ کرتا ہے جیسے کوئی سزا مل رہی ہے کیا یہ ہمارے وزیر داخلہ کا بیانیہ ہے ؟
سرائیکی خطہ کے منگن بلوچ نے ن لیگ کو ووٹ دیا لیکن وہ حال یا مستقبل میں ن لیگ کے اقتدار میں بہتری کی کوئی اُمید نہیں رکھتا اُس کا کہنا ہے کہ مجھے کچھ پتہ نہیں کہ اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے نشیبی علاقہ میں میرا گھر 2010کے سیلاب میں بہہ گیا اور ایک چھوٹا سا قطعہ اراضی جو میری روزی روٹی کا واحد ذریعہ تھا سندھ دریا کٹائو میں نگل گیا ۔میری عزت نفس چھن گئی حالات بہت خراب ہیں قطع نظر اس کے کہ شہر اقتدار پر کون بر اجمان ہے ایک بات کا مجھے پتہ ہے کہ آپ کسی پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے 2013کے الیکشن میں ن لیگ کو اعتماد سے نوازنے والے کسی شخص کے اس بیانئے کو کیا حکومت کا بیانیہ کہا جا سکتا ہے ؟کیا یہ سب الفاظ اس ساری کیفیت پر منطبق نہیں ہوتے جو حالات کی صورت میں ہمیں اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی ہے ؟
مورو کا راشد کلہوڑو کہتا ہے دو پارٹیوں کی لوٹ مار نے عام آدمی سے بہت کچھ چھین لیا اس کی معاشی حالت تباہ ہوگئی اور وہ روٹی کے نوالے تک کو ترس گیا کچھ نیا کرنے کی ضرورت ہے ،سب کچھ تبدیل کرنے کی ضرورت !کیا یہ بیانیہ کسی بھی حکومتی وزیر کے موقف کی تائید کرتا ہے ؟
کوئٹہ کے وسو بلوچ نے پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا اس نے بہت خوبصورتی سے جمہوریت کے چہرے پر پڑا نقاب نوچا ”سیاست کو کاروبار بنایا گیا اور پھر اُس کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے ذاتی کاروبار کو تقویت دی گئی عدم مساوات پر مبنی معاشرے میں ریاست کے اہلکاروں کو اپنا معیار زندگی بڑھانے کیلئے اس کرپشن کی ہولی میں بھلا ہاتھ رنگنے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے وسو بلوچ کا بیانیہ کسی طرح بھی کسی ن لیگ کے وزیر کا نہیں ہو سکتا ؟
ن لیگ کی” دیکھو دیکھو کون آیا ”کی جذباتی نعرے بازی ساڑھے چار برسوں میں ہوا ہو چکی،سرمائے کے شیر کی آدم خوری کو عوام بھانپ چکے پی آئی اے کے مد مقابل اپنی نجی ایئر لائن (ایئر بلیو ) کو مضبوط کرنے والا شخص جو الیکشن کے بجائے سلیکشن سے وزیر اعظم کی کرسی پر متمکن ہوا وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھ کر بھی ایک نااہل شخص کو اپنا وزیر اعظم کہہ کر جمہوریت کا منہ چڑا رہا ہے جس کی ذاتی ایئر بلیو 230ارب سالانہ منافع کمارہی ہو اور قومی ایئر لائن 400ارب سالانہ خسارہ میں ہو کیا اس کی حب الوطنی پر کراس کا نشان نہیں لگتا ؟ اس کا عجیب استد لال ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو عوام نے قبول نہیں کیا یہ ایک بیمار اور مرتے ہوئے نظام کے ناعاقبت اندیش نمائندے کا بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے یہ بیانیہ بھی ریاست کا نہیں دستیاب اعدو دو شمار بہر صورت صرف یہی ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیں ایک طویل تعطل کا سامنا ہے۔
اسے خود ساختہ خواہشات کی کوکھ سے توقعات کا جنم کہا جا سکتا ہے ملکی معیشت کو سہارنے کیلئے لامحدود قرضوں کے حصول کااشاریہ ایک جھلملاتی روشنی کی نشاندہی کرتا ہے 2018کے متوقع عام انتخابات میں لٹیروں کو عوام آخری دھکہ دیں گے جنوبی پنجاب کے ریاض پیر زادہ کے ساتھ نمائندگان کی اکثریت کا رد ِ عمل حمائتیوں کے متنفر ہونے کا اظہار ہے ایک ناہل شخص کا وزیر اعظم ،وزیر داخلہ ایک جامد اور زوال پذیر معیشت پر جتنی چاہے مبالغہ آرائی کر لیں عوام اسے تسلیم ہی نہیں کریں گے حواریوں کے اندر عروج کے سالوں میں پیدا ہونے والا جوش و خروش اس وقت خواب ہو چکا ایک ناہل اور لوٹ مار کرکے بیرون ملک مالیاتی اداروں کا پیٹ بھرنے والے شخص کے ساتھ برسوں کی وابستگی کو بعض با ضمیر افراد شرمندگی کے فعل سے تعبیر کرتے ہیں۔
زیرو پوائنٹ پر کھڑے تنخواہ دار جاوید چوہدریوں ،قاسمیوں ،عرفان صدیقیوں ،صافیوں اور طلعتوں نے اپنی تحریروں ،چرب زبانی سے ہمیشہ امکانات اور آثار برآمد کرنے کی کوشش کی ایسے لوگوں کو ہر دور میں کوئی نہ کوئی ایسی چراگاہ ضرور میسر رہی جو ضمیر فروشی جیسی طرز صحافت کیلئے چارہ فراہم کرنے کا سبب بنی ،جھوٹ کی حمایت میں دلائل گھڑنے والے موقع پرست ،لالچی دانشور اور معاشی تجزیہ نگار ہر دور میں اقتدار پر قابض طبقہ کے کاسہ لیس بنے بشمول وزیر اعظم وزراء کی فوج ظفر موج ایک نااہل شخص کے اشارہ و ابرو کی آج بھی منتظر رہتی ہے کیچڑ میں گری ہوئی گیند کو دوبارہ اُٹھا کر کھیلنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔