پاکستان میں برسراقتدار لیڈران نے ہمیشہ ہی غریبوں کی زندگی کو اجیرن بنایا ہے ،ہمارے سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے حکومت پر تنقید کے وہ ڈانگرے برساتے ہیں کہ جنہیں سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب خیر خواہان ِملت اقتدار ملنے کے بعد گویا ملک بھر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہا دیں گے ۔اور پاکستان کا شمار دنیا کے صف اوّل کے ان ممالک میں ہونے لگے گا کہ جو محکوم اور مظلوم اقوام کو قرض دے سکتے ہیں اور گویا ایسا نظام بنا دیں گے کہ لوگ روزگار کیلئے امریکہ ، برونائی ، یو اے ای یا کینڈا جانے کی بجائے پاکستان کا رخ کر لیں گے ۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے لئے ان کاموں کو کرنا کتنا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ خود بھی اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔خوشامدی،مفاد پرست ٹولہ جو اداروں کی خدمت کو اپنا اولین مقصد سمجھتا ہے ،ہر حاکم کے گرد جمع ہوجاتاہے اور اپنے آقاؤں کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے مسائل میں اضافہ کرنے اور غریبوں کو زندہ درگور کرنے میں لگ جاتا ہے۔
ایک نظر حکومتوں کی تبدیلی پر ڈالی جائے تو ایک ہی فارمولہ اپنایا جاتا ہے کہ جمہوری حکومت کو دو تین سال بعد اقتدار سے الگ کئے جانے کی سازشیں عروج پانے لگتی ہیں ، فوجی حکومتوں نے ہمیشہ ہی تقریباً 10سال راج کیا ہے جبکہ جمہوریت پسندحکومت کی مدت2یا3 سال تک محدود رہی ۔ہر حکومت نے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں اور حکومتوں سے امداد یا قرض لینے کا سلسلہ پروان چڑھایا ۔قرض اور امداد کے سہارے نظام مملکت چلانے کی سعی کی ،بے تحاشا کرنسی نوٹ چھاپ کر افراط ِ زر پیدا کیا ،ڈالر کی اُڑان اونچی ہوتی گئی ،مہنگائی غریبوں کو زندہ درگور کرتی رہی اور حکمران سابقہ حکومتوں پر سارا ملبہ ڈال کر عوام کو بے وقوف بنانے میں لگے رہے ۔قوم کو یہ خوشخبری سنائی جاتی رہی کہ سابقہ حکومتوں نے ملک کو دیوالیہ کر کے رکھ دیا تھا ۔اب ہم نے کمال مہارت سے ملک کو بچالیا ہے۔کسی حاکم نے یہ نہ کیا کہ سابقہ حکمرانوں کو لعن طعن کرنے کی بجائے ملک کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے کی تدبیر کرتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ماضی اور حال کے لیڈران کے پاس اس قدر دولت ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ہمیں کسی بیرونی قرضے یا خیرات کی ضرورت ہی نہ پڑے لیکن آج تک کوئی لیڈر بھی قوم کو ایسا نہیں ملا کہ جس نے وطن عزیز کو غیروں کے چنگل سے نجات دلانے کی تدبیر کی ہو ۔
موجودہ حکومت بھی تمام خرابیوں کا ملبہ اپنی پیش رو حکومتوںپر پھینک کر وہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے کہ جو ہمارے سیاستدانوں کی ہمیشہ ہی پہچان رہی ہے ۔بلاشبہ! ہماری قوم میں بہت دم ہے ،70سالوں سے ظلم سہنے والی ہماری یہ قوم اب بھی حوصلہ مندی کے ساتھ سب کچھ برداشت کر رہی ہے ۔اور اب ان چیزوں کی اس قدر عادی ہو چکی ہے کہ وہ برملا اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ کوئی پرابلم نہیں ،ہمارے وزیرِ باتدبیر بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پیٹرول کا نرخ گیارہ روپے کی بجائے 6روپیہ ہی تو بڑھایا ہے ،گویا تبدیلی حکومت نے یہ بھی قوم پر احسان کیا ہے ،ورنہ اگر حکومت گیارہ روپے ہی بڑھا دیتی تو کون سا قیامت آ جانا تھی ۔اور کون سا عوام نے کنٹینر پر چڑھ جانا تھا ۔سچ تو ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے لوگ زیادہ سے زیادہ خود کشیاں ہی کر سکتے ہیں ۔یا پھر اپنی عزتوں کا نیلام کرکے ہی اپنی گذر بسر کا سامان کر سکتے ہیں ۔لیکن ان باتوں سے حکمرانوں کو کیا فرق پڑتا ہے ۔؟
مرنا تو غریب کا مقدر ہے ، دہشت گرد بھی غریب کو ہی مار کر ڈالر کماتے ہیں ،حکمران بھی قوم کو بیچ کر اپنا اُلو سیدھا کر لیتے ہیں ۔آخر کب تک یہ سسٹم چلے گا ۔۔؟ ہماری آنے والی نسلیں معاشی بدحالی کی وجہ سے مایوسی کی دلدل میں دھنستی چلی جا رہی ہیں ۔اخلاقیات کا جنازہ نکل ہوچکا ہے اس کی بنیادی وجہ بھی مہنگائی کا وہ ”سونامی ”ہے جو ہر حکومت کے دور میں تسلسل کے ساتھ آتا رہتا ہے ۔دنیا بھرمیں حکومتیں سال میں ایک بار بجٹ کا اعلان کرتی ہیں جبکہ ہمارے ”شہنشاہ ِاعظم” جب دل چاہے” منی بجٹ ”کی صورت میں لوگوں پر مہنگائی کا بم مار دیتے ہیں۔
ان حالات میں کوئی احتجاج کرے بھی تو کس سے کرے ۔۔؟غریبوں کیلئے ”پناہ گائیں ”(شلیٹر ہوم ) بنانے کا اقدام اچھا سہی لیکن پاکستان کی کثیر آبادی سفید پوش طبقے سے تعلق رکھتی ہے ،جو بمشکل اپنی ضروریات پوری کررہے ہیں ،یہ وہ طبقہ ہے جو کسی کے آگے ہاتھ بھی نہیں پھیلا سکتا اور نہ ہی اپنے بچوں کے ساتھ ان پناہ گاہوں میں رہ سکتا ہے ،ان لوگوں کے مسائل حل کرنا اہم ذمہ داری ہے جس سے ہم غافل ہیں ،ایک بات طے ہے کہ اگر ریاستِ مدینہ کے دعویدار غریبوں کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکے تو آئندہ جوعذاب قوم پر نازل ہوگا وہ ماضی سے زیادہ خوفناک ہوگا ۔اس بارے کوئی دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جو حکومت 100یا 150دنوں میں عوام کو کچھ نہیں دے سکی،اُس نے آئندہ 5سالوں میں کون سا تیر مارناہے۔معاشی بدحالی اور غیروں کی غلامی نے قوم کو اس قدر بے حس اور مردہ ضمیر کر دیا ہے کہ اب تو لوگ ”مہنگائی بم ” سے گھبرانے کی بجائے خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور شائد دل ہی دل میں ایک مقبول گیت کو اس طرح گنگناتے نظر آتے ہیں کہ ۔۔ ایک ستم اور میرے خان۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ابھی جاں باقی ہے ۔
بیشک ! قوم میں ابھی دم باقی ہی ہے ،لیکن کب تک ۔۔؟ ایسانہ ہو کہ مہنگائی کا یہ سونامی ہمارا سب کچھ ساتھ بہا کر لے جائے اور ہم ساحلِ سمندر پر کھڑے ہو کر اپنی قسمت پر آنسو بہا رہے ہوں اور کوئی ہمارے آنسوتک پونچھنے والا بھی نہ ہو، اس لئے قوم کو ریاست ِ مدینہ کے خواب دکھانے والے” خانِ اعظم ”کو حالات کا از خود جائزہ لینا چاہئے ،مشیروں اور وزیروں نے تو ہمیشہ ہی ہرحاکم کو بے آبرو کرکے ہی حکومت سے نکلوایا ہے ،ان خوشامدیوں سے خیر کی کوئی توقع کرنا عبث ہے ۔اس لئے ان لوگوں سے اپنا دامن بچانا لازم ہے ۔اللہ! وطن عزیز اور ہماری قوم پر رحم فرمائے۔ آمین ۔