تحریر : اسلم انجم قریشی پاکستان پیپلزپارٹی نومبر سے نومبر تک پچاس کا ہندسہ یعنی نصف صدی کا قصہ سنا رہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے ان وقتوں میں یہ کارنامے انجام دیے اور ایک اخباری اشتہار کی شکل میں عوام کو آگاہ کیا گیا ہے کہ عوام ہماری کارکردگی کو پڑھیں۔ لو جی ہم نے آپ کی جانب سے دیے گئے اخبارات میں اشتہار کو ایک نظر دیکھا اور اشتہار کا غور و فکر سے مطالعہ بھی کیا لیکن اس کے باوجود ایک چیز سامنے سے نہیں گزری جو پاکستان پیپلز پارٹی کی سب بڑی ناکامی سمجھی جائے مگر میں ابھی اس ناکامی کا ذکر نہیں کروں گا پہلے ان کے کارہائے کارناموں کاحوالہ دیتا ہوں جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے نصف صدی کا قصہ کے عنوان سے پاکستان کے مختلف اخبارات میں ایک اشتہار کی شکل میں شائع کروایا اخباری اشتہار میں ٣٠ نومبر١٩٦٧سے ٣٠ نومبر٢٠١٧ تک کا کچھ انداز اس طرح کا تھا جس میں یہ لکھا گیا کہ جمہوریت کی پاسداری عوام کی سربلندی جو روایات عوامی جذبہ شہادت کی پچاس سالہ زندہ تاریخ بتائی جس کے مطابق ٣٠ نومبر ١٩٦٧ کے تاریخ ساز دن پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام وجود میں آنا سالہاسال سے جاری ظلم واستحصال اور عوامی محرومیوں کے خلاف تاریخ کا فیصلہ تھا مزید لکھا گیا کہ عوام کے حقوق کی خاطر قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار پر جھول کر اور شہید جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے جس روشن روایت کی بنیاد رکھی پاکستان پیپلز پارٹی کا قابل فخر اثاثہ ہے۔
قائد عوام کی سیاسی وراثت کے امین اور شہید جمہوریت کی تصویر چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی آج عوامی حقوق کے ت تحفظ جمہوریت کی پاسداری اور پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اکیس کروڑ جمہوریت پسند پاکستانیوں عوامی سیاست اور عوامی قیادت کے پچاس سال مبارک۔ یہ تو تھی ان کی پچاس سالہ عبارت اور اب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ٢٤ کارناموں کا ذکر کچھ اس طرح کیا ملک کا پہلا متفقہ آئین، ایٹمی پروگرام کا آغاز،٩٤ ہزار جنگی قیدیوں کی رہائی، اسلامی سربراہ کانفرنس انعقاد، پاکستان اسٹیل ملز ہیوی مکینکل کمپلیکس ، پورٹ قاسم بندر گاہ اور لاہور ڈرائی پورٹ کا قیام آزاد خارجہ پالیسی ، ملکی دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے میزائل پروگرام جنگی بنانے کی صنعت پریس سنسر کے کالے قوانین کا خاتمہ تیل اور گیس کی پیداوار میں ٢٢ فیصد ا ضافہ ٹیلی کمیوکیشن کے شعبے میں انقلاب موبائل ٹیکنالوجی اور انٹر نیٹ کا آغاز خواتین اور نوجوانوں کے لئے الگ وزارتیں چار ہزار دیہاتوں کو بجلی کی فراہمی پانچ لاکھ نوئے ہزار بجلی کے نئے کنکشن ١٠٠٠ میگا واٹ غازی بروتھا پراجیکٹ اور نیلم جہلم پراجیکٹ سرمایہ کاری کے لئے غیر ضروری پابندیوں کا خاتمہ درآمد اور برآمد پا لیسی میں توازن انوسیمنٹ بورڈ کی تشکیل چین کے ساتھ گوادر پورٹ کا منصوبہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کی بنیاد ١٩٧٣ کے آئین کی بحالی اور تمام اختیارات پارلیمنٹ کو منتقل اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختاری آزاد عدلیہ کی بحالی ٢٠ ویں ترمیم کے ذریعے انتخابات کو شفاف بنانے کی بنیاد آغاز حقوق بلوچستان صوبہ سرحد کیلئے خیبر پختوا کا نام پختون قوم کیلئے شناخت گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ اور فاٹا کو آئنی حقوق پاک ایران گیس لائن منصوبہ شامل تھا۔
اس کے علاوہ اس اشتہار میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو، اور ان کی اہلیہ محترمہ نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری ،بلاول بھٹو زرداری اور دیگر غیر ملکی سربراہوں کی تصویر آویزاں تھیں اور کچھ منصوبوں کی جھلک دکھائی دی گئی۔ یہ کارکردگی گذشتہ نامکمل صدی کے دوران ایک قصہ کے طور پر بتائی گئی۔ در اصل دنیا میں کہیں بھی کسی بھی حکمران پر یہ ذمہ داری اور اس کی اولین فرض اور اس پر لازم وملزم ہوتا ہے کہ ملک وقوم کی ترقی اس کی فلاح و بہبود کے لئے بہتر سے بہتر اقدامات کئے جائیں اور سب سے بنیادی ضرورت اس حکومت اور اس پر حکمرانی کرنے والے حکمراں پر اپنی عوام کے جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانا ہوتا ہے کیوں کہ قوم جب اسے منتخب کرتی ہے تو بننے والی اس حکومت پر دارمدار ہوتا ہے کہ وہ قوم پر احسان سمجھ کر نہیں ایک خادم بن کر ملک و قوم کی خدمت کی جائے۔ لیکن اب تک پاکستان میں جس پارٹی نے بھی اقتدار سنبھالا اس نے قوم کے جان ومال کے تحفظ کو کھبی یقینی نہیں بنایا جس کی مثال مختلف ادوار کے اقتدار میں دیکھی جا سکتی ہے۔
بس عوام پر یہ دعویٰ اور احسان جتانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اسی طرح عوام کو ہمیشہ سے الجھا کر یہ لوگ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے چلے آرہے ہیں میں مختصر اور سنجیدہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کا حوالہ یہ دینا چاہتا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں دیگر کے علاوہ ان کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹوکا قتل ہوا جس کے تاحال قاتلوں کا سراغ لگانے میں پاکستان پیپلز پارٹی ناکام رہی یہی جس کو پاکستان پیپلز پارٹی شہید جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو کہتی ہے جس کا مشرف کے دور میں قتل ہوا جس میں وہ بھی اس قتل کی تحقیقات کرانے میں ناکام رہے چلو مان لیا لیکن اس کے بعد یعنی پھر پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار محترمہ کے سانحہ کے طور پر ملا اور اس کی مرہونت حکومت ملی اور صدر مملکت کے عہدے پر آصف علی زرداری پہنچے اور پورے پانچ سال اپنی صدارتی کرسی پر براجمان رہنے کے باوجود وہ جو چاروں صوبوں کی زنجیر کہلانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ کے قاتل آج تک آزاد گھوم رہے ہیں اس طرح یہ پاکستان پیپلز پارٹی نامکمل صدی کے قصہ میں شہید جمہوریت بے نظیر بھٹو کے قاتلوںکو گرفتار کرنے میں ناکام رہی اور پاکستان پیپلز پارٹی اپنے نامکمل صدی کا قصہ جو گذشتہ دنوں ٣٠ نومبر١٩٦٧سے ٣٠ نومبر٢٠١٧ تک پچاس سالہ نصف صدی کا قصہ منایا گیا تھا مگر پی پی پی اس نامکمل صدی کا قصہ میں پیپلز پارٹی کے کارکنان کی محبوب قائد محترمہ بے نظیربھٹو کے قتل کی تحقیقات میں ناکامی کا ذکر کرنے سے قاصر رہی۔ یہ تھا پاکستان پیپلز پارٹی کا نصف صدی کا قصہ۔۔