اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے علماء کے ساتھ مشاورت کے بعد بیس نکاتی احتیاطی ہدایات کا اعلان کر دیا۔ ان متفقہ تجاویز کے تحت ملک میں مساجد کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔
صدر عارف عالوی اور علماء کے اتفاق رائے پر مشتمل فیصلے کے مطابق مساجد اور امام بارگاہوں میں نماز کلورین سے صاف کیے گئے فرش پر ادا کی جائے گی اور مسجد میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی۔ مساجد کے احاطے میں مجمع لگانے سے پرہیز کیا جائے گا۔ نماز کی صف بندی میں نمازیوں کے درمیان کم از کم دو افراد کا فاصلہ برقرار رکھا جائے گا۔
اسی طرح بچوں، ضعیف اور بیمار افراد کو گھر پر عبادت کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ وضو، سحری، افطاری اور دیگر عبادات گھر پر ہی کریں۔ اگر نماز کے لیے مسجد جائیں تو ماسک پہن کر جائیں۔
حکومتی اعلامیے سے یہ واضع نہیں کہ یہ محض مشورے ہیں یا ایسی سرکاری ہدایات جن پر عمل یقینی بنایا جائے گا۔
پاکستان میں پچھلے چند ہفتوں کے دوران کئی مساجد نے بارہا کھلے عام لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے باجماعت جمعہ نماز کا اہتمام کیا۔ اس کی سب سے واضع مثال اسلام آباد میں قائم لال مسجد ہے، جہاں گذشتہ روز بھی نماز جمعہ باجماعت ادا کرائی گئی لیکن وفاقی دارالحکومت میں پولیس اور انتظامیہ بے بس نظر آئی۔
واضع رہے کہ سعودی عرب اور کئی دیگر مسلم ممالک نے کورونا کی عالمی وبا کے باعث باجماعت نماز اور رمضان کے دوران مساجد میں تراویح پر پابندی کا اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان میں منگل کو مذہبی حلقوں نے حکومت کو دھمکی دی تھی کہ وہ رمضان کے آتے مساجد کھولنے جا رہے ہیں۔
ہفتے کو مساجد سے متعلق اعلان سے قبل صدر علوی نے چاروں صوبوں کے گورنر، چیف سیکریٹری اور مختلف مکاتب فکر کے علما کے ساتھ ویڈیو کانفرنس پر اجلاس کیا۔
ٹی وی پر حکومتی فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا کہ بیس نکاتی احتیاطی ہدایات پر عمل یقینی بنانا صرف آئمہ اور حکومت کی نہیں بلکل ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اگر ان متفقہ تجاویز کی پاسداری نہ کی گئی تو پھر حکومت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہے۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض علاقوں کے مخصوص حالات کے پیش نظر مختلف پالیسی اختیار کی جا سکتی ہے۔
پاکستان میں ہفتے کی شام تک کووڈ انیس کے کیسز کی تعداد سات ہزار چھ سو سے تجاوز کر گئی جبکہ اموات ایک سو چوالیس ہو چکی ہیں۔ صحت کے ماہرین کو خدشہ ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی اور رمضان کے دوران اجتماعات سے یہ صورت حال مزید بگڑ سکتی ہے۔