قارئین گزشتہ کچھ روز سے ہمارے ہاں بہت سے واقیات رونما ہو رہے ہیں۔ کچھ روز پہلے سنبل زیادتی کا نشانہ بنتی ہے اس کے مجرم گرفتار نہیں ہوتے کہ فائزہ سمیت اور دو بچیاں اس کا شکار بن جاتی ہیں۔ یہ واقیہ ابھی تمام میڈیا دوست بھلا نہیں پاتے کہ پشاور کا واقع رونما ہوتا ہے۔
اس بار پاکستانی مسیح بھائیوں، بہنوں، بیٹیوں اور مردوں کو اکٹھا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ 100 سے زائد افراد کو ان 2 دھماکوں میں اپنا خون کا نظرانہ پیش کرنا پڑتا ہے۔ ان 100 کے لگ بھت خون کا نظرانہ پیش کرنے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔ ایک نہیں کئی مصوم جن کی عمریں 2 سے 8 سال کے درمیان تھیں۔
ان مرنے والوں میں ایک ہی گھر کے ماں باپ اور ان کا 5 سالہ بیٹا بھی شامل تھا۔ جن کی راہ گھر میں موجود دو بچے تک رہے تھے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ گھر میں ان کے والدین نہیں ان کی لاشیں آئیں گی۔
قارئین ان دھماکہ کرنے والوں کو شدت پسند کہیں یا پاکستانی طالبان میں تو اپنی ناقص رائے کے مطابق ان کو شدت پسند کہوں گا۔ قارئیں طالبان تو وہ لوگ تھے جن کے دور حکومت میں افغانستان میں ایک سونے سے لدی ہوئی عورت پورا افغانستان اکیلی پھر لیتی تھی لیکں اس کو کوئی لوٹ نہیں سکتا تھا۔
اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تھا۔ کسی میں اتنی جرت نہ تھی کہ کوئی اَس کی عزت پر ہاتھ ڈال سکے۔ وہ لوگ کس طرح مصوم عورتوں، بچوں اور مردوں کا خون بے جا بھا سکتے ہیں۔ نہیں یہ طالبان ہو ہی نہیں سکتے۔
Taliban
یہ وہ شدت پسند ہیں جو غیر ملکی ایجنٹ ہیں جن سے پاکستان میں ہونے والی کسی قسم کی ترقی برداشت نہیں ہو سکتی یہ وہ ایجنٹ ہے جس کے بارے میں میڈیا بھی رپورٹ دے چکا ہے کہ ان کا اصل سربراہ کا تعلق امریکہ سے ہے۔ پشاور دھماکہ کرنے والا شدت پسندگروہ کا سربراہ قارئین حقیقتاََ امریکہ سے تعلق رکھتا ہے۔
امریکن صدر کو پاکستان ہونے والے حملوں پر دکھ ہے لیکن اس بات پر شرمندگی کیوں نہیں کہ یہ حملے کرنے والی جماعت کا سربراہ امریکہ سے تعلق رکھتا ہے۔ انڈین میڈیا اس بات کو کھول چکا ہے کہ سابق انڈین آرمی چیف نے پاکستان میں حملے کروانے کے لیئے ایک سیل بنا رکھا تھا۔
تو جناب یہ طالبان تو نہ ہوئے۔ اس حملے سے حکومت طالبان مزاکرات میں فرق تو نہیں آنا چاہیے۔ کیونکہ جو حکومت طالبان مزاکرات ہیں وہ تو ایک امن قائم کرنے کی پاکستان افغانستان میں ابتداء ہے۔
قارئین یہ وہ سیل ہے جن کی سپورٹ BJP بھارتی جنتا پارٹی کرتی ہے۔ اسی سیل میں موجود لوگ پاکستان آرمی کے میجر اور ان کے ساتھ موجود دوران ڈیوٹی 3لوگوں کو شہید کرتے ہیں۔
چوہدری نثار کی یہ بات سن کر خوشی ہوئی کہ اِس حملے سے مذاکراتی عمل نہی رک سکتا۔ ہماری حکومت اگر سنجیدگی سے غور کرے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کا ساتھ دیں تو حکومت اِن حقائق کو بہت اچھے سے جان لے گی یہ طالبان نہیں شدت پسند ہیں ۔یہ وہ شدت پسند ہیں جنہوں نے کراچی کا امن تباہ کر رکھا ہے۔
یہ وہ شدت پسند ہیں جن ظالموں نے نہ تو مسجدیں چھوڑیں اور نہ ہی مندر اور نہ چرچ ارے یہ شدت پسند تو انسان کہلانے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ یہ شدت پسند درندے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کسی بھی قسم کی سیاسی و معاشی راہ میں ہونے والے اقدامات دیکھ کر مر جاتے ہیں۔ اِن جانوروں سے برداشت نہیں ہوتا یہاں پر موجود لوگ خوش رہیں شدت پسندوں نے چرچ پر حملہ کر کے یہ ثابت کرنا چاہا تھا کہ اِس حملے میں عیسائی اور مسلماں آپس میں پھوٹ کا شکار ہوں گے۔
شاید یہ ان کی طرف سے مذہبی بنیادوں پر جھگڑا کروانے کی کوشش تھی لیکن کرسچن برادری کی طرف سے صبر کا دامن تھا اور مسلم کمیونٹی کی طرف سے فوری طور پر ان کی مدد کر کے ان کے دکھ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔
قارئین اکثر جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو خدا بھی جوش میں آجاتا ہے اور وہ تمام لوگ جو ظلم کرنے میں آگے ہوتے ہیں خدا کے عذاب کے مرتکب ٹھہرتے ہیں۔ وہ دِن دور نہیں جب یہ تمام ظلم کرنے والے خدا کی طرف سے لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنیں گے۔ کیونکہ خدا تو لوگوں کے دِلوں کی آہ سننے والا ہے۔