یا اللہ !یہ کیسا دیس ہے میرا پاکستان۔۔۔۔۔۔۔؟

Pakistan

Pakistan

تحریر : اے آر طارق

٭ جہاں آئے روز بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بیچاری عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسا جائے۔
٭ جہاں مہنگائی بڑھے مگر لوگوں کی تنخوائیں اُس تناسب سے نہ بڑھیں۔
٭ جہاں نوجوان ہاتھوں میں ڈگریاں لیے اِدھراُدھر دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھریں،تلاش حصولِ روزگار کے لیے چل چل کر تھک جائیں،پائوں کی جوتیاں گھس جائیں مگر کام نہ ملے،بے روزگاروں کو روزگار مہیاء نہ ہو۔
٭ جہاں پاپی پیٹ کا ایندھن بھرنے والی اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کریں، بہتری اور گرپ کی کوشش میں ہر شے ہاتھوں سے سرکتی جائیں۔
٭ جہاں سرکاری سکولوں کا معیار انتہائی نکما ،نہ ہونے کے برابر ہو۔
٭ جہاں سکولوں میں مفت کتابیں کچھ طلباء کو تو مل جائیں اور کچھ کو پوارا سال گزارنے پر بھی نا ملیں۔
٭ جہاں قوم کے معماروں کا ڈر طلباء کے دل و دماغ سے ”مار نہیں پیار ” کا نعرہ لگا کر نکال دیا جائے اور خراب رزلٹ پر اساتذہ کو ٹارگٹ کیا جائے،ترقیاں روک لی جائیں۔
٭ جہاں امیر کے لیے قانون ”موم کی گڑیا”اور غریب کے لیے ”سخت شکنجہ”ہو۔
٭ جہاں امیرافراد کرپٹ ہوتے ہوئے بھی، پیسوں کے بل بوتے پر،وکیلوں کے ذریعے،اپنے جھوٹ و فریب کے باعث، معزز عدالتوں کی آنکھوں میںدھول جھونک کر ،سے وقتی و مستقل ریلیف لے لیںاور کمزور غریب لوگ بے گناہ ہوتے ہوئے بھی ،ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر معمولی معمولی جرائم میں لمبے عرصے تک جیلوں میں مقید رہیں۔
٭ جہاں بااثر شخص کو تو عدالت میں حاضر ہوئے بغیر تعطیل والے دن بھی ضمانت مل جائے اور کمزور فرد کی کوئی ورکنگ ڈے میں بھی ڈھنگ سے نہ سُنے۔

٭ بااثرامیرآدمی انصاف اور سہولتیں پائے ،جھوٹا ہوکر بھی سچا کہلوائے اور کمزورو غریب شخص سچا ہوکر بھی انصاف کی دہائیاں دیتے رحم رحم کی بھیک مانگتے بھی انصاف حاصل نہ کر پائے۔
٭ جہاں چندمعزز ارکانِ اسمبلی کو اُن کے بدیانت وخائن ہونے کے باوجود پروڈکشن آرڈر مل جائیں اور عام شہری ،انڈا و روٹی چورکو معمولی جرائم پر بھی جیل سے رہائی نہ ملے۔
٭ جہاں حکومت و اپوزیشن کے اختلافات کی صورت میں سڑکیں بند ہونے سے مریض ایمبولینس میں ہی چل بسیںاور رستے نہ کھلیں۔
٭ جہاں ڈاکٹر اپنے حقوق کے لیے ہڑتالوں پر ہواور مریضوں کا ہسپتالوں میں کوئی پُرسانِ حال نہ ہو۔
٭ جہاں کے ہسپتالوں میں ڈاکٹر کی احتجاجی ہڑتال کوکامیاب کرنے کے لیے مریض ایمرجنسی و وارڈوں سے نکال کر پارکوں،باغیچوں میں دھکیل دئیے جائیں اورآئوٹ ڈور کو تالے لگا دئیے جائیں۔
٭ جہاں ڈاکٹر دستیاب ہوتو دوائی میسر نہ ہو،اگر دوائی دستیاب ہوتو ڈاکٹرمیسر نہ ہو۔
٭ جہاں کے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹر و عملہ سرکاری ادویات کو ”’باپ کا مال” سمجھ کرخالی پلاسٹک کی شیشیوںبوتلوں میں بھر کراپنے نجی کلینکوں میں غیر قانونی استعمال میں لاکر مال کمائیں اور پکڑے بھی نہ جائیں ۔
٭ جہاں ڈاکٹر ”مسیحا ”کم اور” رہزن” زیادہ لگے۔

٭ جہاںایک نان کوالیفائیڈ،کسی شخص کو سٹیرائیڈکا ٹیکہ لگا دے تو جرم دار کہلائے اوراگر ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹراپنے مریض کو شفاء کے نام پر ادویات کے ساتھ اپنا مستقل گاہک بنانے کے لیے سٹیرائیڈ انجکشن لگائے تو کوئی بات نہیں۔
٭ جہاںایم بی بی ایس ڈاکٹر کی بھاری فیس صرف اور صرف پیسا کمانے کے لیے ہو،نہ کہ علاج و خدمت کے لیے۔
٭ جہاں کے پرائیویٹ ہسپتالوں کلینکوںمیں ڈاکٹرو نرس زیادہ پیسے بٹورنے کے لیے ایک پیٹ درد کے مریض کا اپنڈکس کا آپریشن کر دیں اور ایک خاتون کی نارمل ڈلیوری کی بجائے بڑا آپریشن کرکے پیٹ پھاڑدیں۔
٭ جہاں کے بڑے ہسپتالوں میں موجود عملہ سے لے کر صفائی والے تک ”اللہ خیر ہوسی”کے بُول بول کرکچھ ہمیں بھی دوبابا،فقیروں سے بھی بُری حالت میں، پیسوں کے حصول کے لیے انعام و خیرات کے نام پر ہاتھ پھیلادیں۔
٭ جہاں کے بڑے ہسپتالوں میںمریضوں کی باربار عیادت کے لیے گیٹ کیپر،چوکیدار و عملہ کو ”نذرونیاز”دینا پڑے۔
٭ جہاں کے بڑے ہسپتالوں میں آپ حالت ِمجبوری میں ،گھائل بدن لئے ،مریض کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ،تمام غموں سے بے نیاز”دروغہ وارڈ”کے لیے صرف open door کی خاطر عالمِ بے بسی میں چائے،بوتل، کیک ،پیسٹری،برگر شوارمے کا انتظام بھی کریں۔

٭ جہاں ملک کے ہرپولیس چیک پوسٹ پرموٹرسائیکل،گاڑیوں والوں سے پولیس اہلکار مختلف حیلوں بہانوں سے ڈرا دھمکا کر پیسے بٹورے جبکہ سڑکوں پر کھڑے ٹریفک اور phpاہلکار الگ سے ایک وبال ہے۔جو پیسہ دے گزر جائے ،جو نہ دے ،چالان کروائے،اوپر سے ستم یہ کہ ڈولفن پولیس والے بھی کونوں،کھدروں میںحصول رشوت کے لیے شہریوں کو علیحدہ سے گھیرے ہوئے اُن پر ظلم ڈھائیں۔
٭ جہاں جعلی پولیس مقابلے عام ہو اور سانحہ ساہیوال میںبے گناہ چار افراد موت کی بھینٹ چڑھا دئیے جائیں،نجانے کتنے ایسے لوگ ،جو ایسی کارروائیوں کا شکار ہوئے جو منظر عام پر ہی نہ آئے،فاعلوں میں
”گہنگار” لکھے گئے اور ابدی نیند سلا دئیے گئے۔
٭ جہاں آئے روز ”سانحہ زینب ”رونما ہوجائے اور اِس کے تدارک کے لیے خالی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پر کچھ نہ کیا جائے۔

٭ جہاں کے ہر ادارے میں حرام خور آفیسر بیٹھے ہواورمالِ حرام سے اپنے پیٹ کا ایندھن بھرنے کو فرض جانتے ہو،پیسہ دو،کام لو،کے فارمولے پر عمل پیرا ہو۔
٭ جہاں ہرسرکاری دفاتر میں آپ کا کام مٹھی گرم کرنے سے ”بادشاہوں آپ کا کام ہوگیا،ہمارا فرض ہے مدد آپ کی”اور رشوت نہ دینے پر چکر پر چکر لگانے کے علاوہ آپ کے کام اور فائل کو مختلف اعتراض لگا کر کیس کو لمبا کردیا جاتا۔
٭ جہاں ہر سرکاری محکمے میں حرام خوری عام ہے،کوئی آفیسر بھی بغیر پیسوں کے اپنے بدن اور قلم کو نہیں ہلاتا،جبکہ ایماندار افسران کم کم پائے جاتے۔
٭ جہاں محکمہ انہار کے ذمہ داران ہی نہری پانی چوری کرواتے،بدلے میں ”نذرونیاز”بٹورتے،پریشر بڑھنے پر کچھ افراد کو پکڑ کر ،کارروائی کرکے سرکار کی نظرمیں ”سب اچھا ”کی رپورٹ کرواتے۔
٭ جہاں زمین کی فرد نکلوانے کے لیے پٹواری کو اب بھی بھاری رشوت دینا پڑتی۔
٭ جہاں رشوت کا چلن عام ،بغیر کچھ لیے دئیے کام ہونا محال۔
٭ جہاں بجلی کے بل صرف غریب دیتے ،امیر کرپٹ واپڈا عملے سے مل کر ”خفیہ ”طریقے سے بجلی چلا کر کرپٹ عملے کی جیبیں بھرتے اور زیادہ بل سے بھی بچ جاتے۔

٭ جہاںقانون صرف غریب و ناتواں کے لیے بنا ہے،امیربااثر کے لیے صرف کھلواڑ اور بہار ہے،ایسے لوگوں کے لیے قانون اگر حرکت میں آتا بھی توصرف دل کا خیال اور نظر کا وبال ہے اور کچھ نہیں۔
٭ جہاں کی معززپارلیمنٹ میں چند ارکان اسمبلی ،سیکیورٹی فورسزپر حملہ آور،اِس کے جوانوں کو زخمی و شہید کرنے کے جرم میں شریکِ کار ، مُلک دشمن کارروائیوں میں بُر ی طرح ملوث پائے گئے پی ٹی ایم کے دو اشخاص ”علی وزیر اور محسن داوڑ” کے پروڈکشن آرڈر کے لیے انتہائی بے اقرار ہو،مگر پاک فوج کے شہداء کے لیے غمناک نہ۔
٭ جہاں کی اپوزیشن جماعتوں کو بددیانت،خائن افراد کی رہائیوں کی بہت طلب ہو،مگر اپنے ملک کی جیلوں میں سڑتے معمولی معمولی جرائم میں ملوث افراد کی قیدجیل سے چھٹکارے کا ذراسا بھی خیال نہ ہو۔
٭ جہاں موجودہ حکومت کے ساتھ ملکی ترقی اور اِس کی فلاح و بہبود کی خاطرایک ساتھ چلنے کے لیے ،کرپٹ افراد کے حوالے سے حکومتی مئوقف میں نرمی لائے بغیر کوئی اپوزیشن فرد چلنے کو تیارنہ ہو۔مگر ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کی باتیں پورے شدو مد سے کی جاتی ہو۔

٭ جہاں کی ہر جگہ لٹیروں کا مسکن،ایماندار کے لیے کوئی جگہ نہ۔
٭ جہاں پڑھے لکھے ،قابل لوگ،اِس مُلک کا حقیقی دماغ آسودہ اورپریشان حال زندگی گزار رہے ہو۔
٭ جہاں رعایا پریشان حال ،اُس کو اُس کا صحیح حق نہیںمل رہا،مگر اِس مُلک کے سرمایہ کار،جاگیردار،وڈیرے،زمیندار ہر طرح کا سکون پائے تمام سہولتوں کے مزے اُڑا رہے ہو۔
٭ جہاںارکانِ اسمبلی کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اُن کی تنخوائیں ،مراعات ،کمال اور اعلی ٰ معیارکی ہیں،جبکہ غریب رعایاکے پاس کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی اُن کی تنخوائیںقلیل اور کم معیار کی ہیں۔
٭ جہاں غریب مزدورکو 15000مہینہ دے کر سمجھا گیا کہ ”بہت ”دے دیا،جبکہ ارکانِ اسمبلی کو لاکھوں سے نواز کر،ہر سہولت بہم پہنچا کر بھی اِس مُلک کے کرتا دھرتا کو لگتا کہ” کم” دیا۔
٭ جہاں معزز غریب شہریوں کو 15000 مہینہ کا دے کراُن کی ”امیرپروری ” کے نعرے لگائے جائیں اور معزز ارکانِ اسمبلی کو لاکھوں دے کر بھی اُن کی ”غریب پروری”کا رُونا رویا جائے۔
٭ جہاں مزدور کو بڑھتی ہوئی ،کمر توڑمہنگائی میںبھی اب بجٹ2019.20 میں17,500مہینہ دے کرصریحامذاق کیا جائے۔
٭ جہاں کی بیشتر فیکٹریوںیونٹس میں مزدور کے ساتھ فراڈ اور اُس کا معاشی استحصال ہوتا ہے،کچھ دن کام کروا کر،پھر کسی نہ کسی بہانے سے از خودچھٹی کروا کر،ایک ہفتے تک کی بنی ہوئی تنخواہ روک کر،یانہ دے کر،ورکرز کا پیس ریٹ کھا کر،اکثر فرم میںتین ہزار تنخواہ کے ساتھ کم پیس ریٹ دے کرآپریٹرز خصوصاہیلپرز کے ساتھ مذاق کیا جاتا،جب اُسے اِس مکاری کااصلی راز پتا چلتا تووہ احتجاجا کام چھوڑ جاتا۔

٭ جہاں مزدور کو سخت محنت کے بعد بھی چند ٹکے ہی ہاتھ آتے،اصل اور تگڑا مال مالکان کماتے ۔
٭ جہاںفرموںیونٹوں میںآپریٹرز،ہیلپرز کو فی پیس ریٹ ،کچھ اور بتاکر ،کچھ اور دے کر پیس ریٹ کھاکر ٹھیکیدار ،مینجرز کمیشن اورپیسہ بناتے،اِس پر احتجاج کرنے والے کا فوری گیٹ بند اور نو انٹری کا تحفہ دیتے۔
٭ جہاں فیکٹری یونٹ مالکان بہت سارا اور تگڑا مال کماتے اور حکومت کو 17 فیصد ٹیکس دینے سے گھبراتے۔
٭ جہاں یونٹوںفرموں میںماہانہ لاکھوں،کروڑوں کماکر بھی چاہتے کہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں کچھ نہ دینا پڑے ،احتجاج کے لیے فیکٹری مالکان حالات کے ہاتھوں مجبورورکروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے سڑکوں پرلے آتے۔
٭ جہاں فیکٹریاں بند کرکے ،مزدور کو روزگار سے محروم کرکے،احتجاج کی صورت میں بطور بلیک میلنگ استعمال میں لاتے۔
٭ جہاں اکثر یونٹوںفرموں میں سرکاری عملہ کی ملی بھگت سے بجلی و گیس چوری کرتے،اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے اور پکڑے بھی نہیں جاتے۔
٭ جہاں غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتا جارہا۔
٭ جہاں امیر کو اب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا صرف غریب کا ہی بُرا حال ہے۔
٭ جہاں اب عوام کے لیے ہر ایک چیز پرلگا ٹیکس کاانبار ہے،کچھ بھی تو نہیں رہ گیا باقی،سانس پر کب لگے گا ٹیکس ،بس اُسی کا انتظار ہے۔
٭ یااللہ !یہ کیسا دیس ہے میرا پاکستان ۔۔۔۔۔؟جہاں امیر کے لیے خوشحالی ،صرف اورصرف غریب کے لیے ہی وبال ہے۔#
نوٹ۔کسی بھی فرد، فرم ،ا دارے ،محکمے یا پارٹی کو کالم نگار کے لکھے گئے کسی بھی مندرجات سے معمولی سا بھی اختلاف ہوتو اخبار کے صفحات جواب کے لیے حاضر ہیں،اخبار کے ایڈیٹر ،ایڈیٹوریل ایڈیٹر اور اخبار انتظامیہ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

A R Tariq

A R Tariq

تحریر : اے آر طارق
[email protected]
03074450515