پاکستان ایک کثیر الجہتی ملک ہے جس میں مختلف مذاہب ، زبانوں،کلچر،رسم ورواج، اورثقافت کے حامل افراد ایک ہی چھت کے نیچے زندگی کے شب و روز گزار رہے ہیں۔اتنے زیادہ اختلافی رنگوں کے باوجود بھی اگر وہ سارے ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آئینِ پاکستان کی روح نے انھیں یکجا رکھا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس آئین کے ساتھ ماضی میں جس طرح کا بیہمانہ سلوک روا رکھا گیا ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ طالع آزمائوں کی طالع آزمائیاں اور فوجی جرنیلوں کی مارشل لائیاں عوامی اذہان کو پراگندہ تو کرتی رہیں لیکن ان کے اذہان میں علیحدگی پسندی کے رحجانات کو فروغ نہ دے سکیں کیونکہ پاکستان کی تخلیق ایک ایسے نظریے کے تحت ہوئی تھی جسے دو قومی نظریہ کہا جاتا ہے۔ مقتدر قوتوں نے اس نظریے کا بھر پور فائدہ اٹھایا اور گاہے بگاہے جمہوریت کا بوریا بستر گول کر کے اقتدار اپنے ہاتھوں میں مرتکز کرلیا ۔نہتے عوام احتجاج کرنے نکلتے تو ان کے جسموں کو کوڑو ں سے داغدار کر دیا گیا ۔جیلوں اور زندانوں میں انھیں طویل عرصے تک نظر بند رکھا گیا تا کہ وہ جمہوریت کے نعروں سے تائب ہو کر ان کے ظلم و جبر کے سامنے سرنگوں ہو جائیں ۔یہ منحوس منظر ہم نے کئی بار دیکھا ہے اور انتہائی دکھ کے ساتھ دیکھا۔جس ملک میں دو تہائی اکثریت رکھنے والا وزیرِ اعظم پا بہ زنجیر ہوجائے ، سرِ دار جھول جائے ، دن کے اجالے میں سرِ عام قتل کر دیا جائے اس پر مزید کچھ بھی کہنااپنے دل کو جلانے کے سوا کچھ نہیں ہے۔
کمال یہ ہے کہ ان غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غیر انسانی ہتھکنڈوں کیلئے بھی بعض ضمیر فروشوں کے پاس انتہائی دلکش جوابات ہیں۔وہ ہر برائی کی جڑ سیاست دانوں کے سر تھوپ کر ایسے سارے غیر آئینی اقدامات کو جائز قرار دینے می شرم محسوس نہیں کرتے ۔ ان کی لغت میں سیاست دانوں کیلئے جمہوریت حصولِ اقتدار کی سیڑھی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے ۔وہ سارے سیاستدانوں کو کرپٹ اور بد دیانت سمجھتے ہیں لہذا طالع آزمائی ان کی نظر میں مستحسن ٹھہرتی ہے ۔اگر ایسے افراد سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ اگر سیاست اتنی ہی آسان اور سیڑھی اتنی ہی ارزاں ہے تو آپ بھی اس کارِ خیر میں حصہ لے کر قوم کا قبلہ درست کیوں نہیں کر تے تو پھر آئیں شائیں بائیں کرنے لگ جاتے ہیںاور سیاست کو پیسے کا کھیل قرار دے کر اس سے توبہ توب کرنے لگ جاتے ہیں۔میرا ایسے تمام افراد سے سوال ہے کہ عمران خان کے پاس کون سے دولت کے انبار تھے جس کی قوت سے اس نے عوام میں اپنا مقام بنایا ہے۔وہ ہماری طرح متوسط گھرانے کا ایک فرد ہے لیکن اس کی فکر اور سوچ نے اسے عوام کے دلوں میں جگہ دے دی ہے۔اگر سارے افراد یہی سوچنے لگ جائیں کہ سیاست پیسے کا کھیل ہے تو پھر کوئی با ہمت شخص اس کوچہ کا رخ نہیں کریگا اور سیاست مخصوص خاندانوں کی باندی بن جائیگی ۔سیاست میں نئے چہرے نئی سوچ اور نئی فکر ہمیشہ سے اہم اور تبدیلی کی غماز رہی ہے ۔نئی فکر ہمیشہ اپنی جگہ بنانتی اور عوام الناس کو متاثر کرنی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کوئی با ہمت انسان عزمِ مصمم سے تبدیلی کا علم تھامے میدانِ عمل میں نکلے ۔سچ تو یہ ہے کہ سیاست ہم سے کمٹمنٹ،محنت،لگن ، حوصلے اور بلند نظریے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس میں وقت ضرور لگتا ہے لیکن محنت اور لگن اپنا رنگ ضرور دکھاتی ہے لیکن جن کے دلوں میں دوسروں پر کیچڑ اچھا لانا لکھا ہو وہ تنقید کے علاوہ کچھ بھی کرنے سے قاصر ہو تے ہیں ۔وہ دوسروں پر الزامات لگانے اور انھیں کوسنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔انھیں سیاستدان دنیا کی سب سے بری مخلوق نظر آتی ہے ۔وہ دوسروں کو بد دیانت اور کرپٹ کہہ کر دل کی تشفی کر لیتے ہیں اور پھر ایک دن ذاتی مفادات کی خاطر انہی کرپٹ افراد کو سینے سے لگانے اور ان کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونے میں دیر بھی نہیں کرتے کیونکہ وہ کسی اصول کی نہیں بلکہ ذاتی بغض و عناد کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں۔،۔
پاکستان اس وقت ایک نئی کیفیت سے گزر رہا ہے ۔منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو تا حیات نا اہل قرار دیا جا چکا ہے جبکہ مقتدر قوتیں گٹھ جوڑ سے کسی دوسری جماعت کو اقتدار کی مسند سے بہرہ ور کرنا چاہتی ہیں ۔عوام یہ سارا منظر کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔مقتدر قوتیں جس طرح اب کی بار ننگی ہوئی ہیں اس سے پہلے کبھی اس طرح ننگی نہیں ہوئی تھیں کیونکہ اب میڈیا کی پھرتیاں کسی چیز کو مخفی نہیں رہنے دیتیں ۔ اس دفعہ تماشہ یہ ہوا ہے کہ میاں محمد نواز شتریف خم ٹھونک کر میدان میں ڈٹ گئے ہیں اور مقتدر قوتوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔وہ عدالتی فیصلہ کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور اس کے خلاف بھر پور مزاحمت کرنا چاہتے ہیں ۔وہ اپنا مقدمہ عوامی عدالت میں لے گئے ہیں۔مریم نواز اور میاں محمد نواز شریف کا بیانیہ عوامی اذہان کو تسخیر کررہا ہے جس نے مقتدر قوتوں میں اضملالی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ سوال یہ نہیں ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے خلاف عدالتی فیصلہ صحیح ہے یا غلط ہے بلکہ اہم بات یہ ہے کہ عوام اس فیصلہ کو کس طرح سے دیکھ رہے ہیں ۔پاکستان کے اصل وارث ٢٢ کروڑ عوام ہیں اور انھیں ہی حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ پاکستان کا مقدر کس جماعت کے ہاتھ میں دیا جائے؟مقتدر قوتیں اور نادیدہ ہاتھ اپنی قوت کے نشہ میں عوامی رائے کو پرِ کاہ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے جس سے ملک میں انتشار اور عدمِ استحکام کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔
کیا یہ عجیب نہیں لگتا کہ منتخب وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کو عدالتی استثناء نہیں دیا جاتا حالانکہ وہ ٧٠سے زائدبار نیب عدالت میں پیش ہو چکے ہیں،جبکہ ان کے مقابلہ میں ایسے قائدین کو جو عدات میں حاضری کو اپنی توہین سمجھتے ہیں استثناء دے دیا جاتا ہے۔اسٹیبلشمنٹ میاں نواز شریف کو عدالت میں بٹھا کر انا کی تسکین کا جو تڑکہ لگاتی ہے عوام اسے محسوس کر تے اور اس سے نفرت کرتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف ابھی تک عوامی نمائندگی اور آئینی تقدس کی اما نت کے حامل ہیں ۔اپنی بیوی کلثوم نواز کو انگلستان میں موت کے منہ میں چھوڑ کر آئینی حکمرا نی کی خاطر پاکستان واپس آ نا کوئی معمولی فیصلہ نہیں ہے۔بڑی ہمت چائیے کیونکہ جیل کی دیواریں میاں محمد نواز شریف کو خوش آمدید کہنے کیلئے بالکل تیار ہیں۔وہ جنرل پرویز مشرف کی طرح راہِ فرار اختیار کر سکتے تھے اور انگلستان میں سیاسی پناہ لے سکتے تھے لیکن انھوں نے اس طرح کی بزدلانہ سوچ کی بجائے بہادروں کی طرح میدان میں ڈٹ جانے کی راہ اپنائی۔مقتدر قوتیں تو اب بھی یہی چاہتی ہیں کہ وہ کسی نہ کسی طرح سے میدان خالی چھوڑ کر بھاگ جائیں تا کہ وہ اپنی من پسند حکومت تشکیل دے سکیں لیکن میاں محمد نواز شریف کا انکار ان کی راہ کی دیوار بنا ہوا ہے۔میاں محمد نواز شریف کا انکار اپنے دامن میں بڑے دور رس نتائج سمیٹے ہوئے ہے ۔سزا کی صورت میں ان کی زندگی جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں ختم بھی ہو سکتی ہے۔ان کو اذیتوں سے بھی گزارا جا سکتا ہے،انھیں زدو کوب بھی کیا جا سکتا ہے۔
انھیں آہنی زنجیروں میں کسا بھی جا سکتا ہے،انھیں بھوکا پیاسا بھی رکھا جا سکتا ے، انھیں تشدد سے بھی گزارا جا سکتا ہے،انھیں بوٹوں کی ٹھوکروں کی نذر بھی کیا جا سکتا ہے اور انھیں ناکردہ گناہوں کی پاداش میں سرِ دار بھی کھینچا جا سکتا ہے۔یہ منظر نامہ کوئی تخیلاتی اور تصوراتی نہیں ہے بلکہ حقائق کا آئینہ دار ہے کیونکہ ماضی میں تواتر سے ایسا ہوتا آیا ہے ۔ہر مقبول لیڈر کا انجام جیل یا موت کی صورت میں قوم کو بھگتنا پڑا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قوم کے منتخب قائدین کو سزائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ انھیں سزائیں دینے والے ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں عیش و عشرت سے اپنی زندگیوں میں رنگ بھر تے دکھائی دیتے ہیں۔سزائیں سنانے والے پارسا اور سزا پانے والے گناہگار ٹھہرائے جاتے ہیں لیکن ایک مختصر مدت کے بعد پتہ چلتا ہے کہ جس نکتہ پر جزا و سزا کی عمارت کھڑی کی گئی تھی وہ باطل تھی لیکن اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ہمارے ہاتھوں میں بس پچھتاوا رہ جاتا ہے اور ہم ساری حیاتی اسی پچھتاوے پر گزار دیتے ہیں۔میری ذاتی رائے ہے کہ آئین کی بالا دستی کا یہ آخری معرکہ ہے کیونکہ اب کی بار آئین کے تحفظ کی آواز پنجاب سے اٹھی ہے اور اس آواز کو بے رحمی سے کچل دینا مقتدر قوتوں کیلئے ممکن نہیں ہے۔وہ سفاکیت کا مظاہرہ تو ضرور کریں گے لیکن انھیں جلد احسا س ہو جائیگا کہ یہ معرکہ ان کے اپنے گھر کے اندر اقع ہو رہا ہے لہذا نھیں اس کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا ہو گا۔،۔
Tariq Hussain Butt Shan
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال