پاکستان کا نیا وزیراعظم کون ہو سکتا ہے؟

Pakistan Parlament

Pakistan Parlament

اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں ’’ان ہاوس‘‘ تبدیلی کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں، سیاسی حلقوں میں ممکنہ طور پر ملک کے نئے وزیراعظم کے لئے درجن بھر لوگوں کے نام گردش کر رہے ہیں۔

بعض حلقوں کے مطابق ”ان ہاوس‘‘ تبدیلی کی صورت میں شاہ محمود قریشی اور شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے اہم آپشن کے طور پر زیر غور آ سکتے ہیں۔ پاکستان کے سینئر تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان جیسے ملک کی سیاسی تاریخ نے ہمیں بتایا ہے کہ یہاں ان ہاوس تبدیلی کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ اس کا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے تعلقات کی نوعیت کیسی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق آزادی مارچ سے حکومت بیک فٹ پر چلی گئی ہے، اب سیاسی قوتوں کے ساتھ نیا ڈائیلاگ شروع ہو گا اور لگتا یہی ہے کہ اگلے تین چار مہینوں میں ان ہاوس تبدیلی آ سکتی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے بقول شاہ محمود قریشی کو امریکا اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا اعتماد حاصل ہے لیکن پارٹی کے اندر ان پر اتفاق رائے ہونا بہت مشکل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں ان کے مخالفین ان پر پارٹی ڈسپلن توڑ کر مقتدر حلقوں سے براہ راست رابطے کرنے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ دوسری طرف شہباز شریف اگر میاں نواز شریف اور مریم نواز کو اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے ”ہاتھ ہولا‘‘ رکھنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی اقتدار کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

تجزیہ نگار نوید چوہدری کے بقول شہباز شریف تو اپنے کچھ حالیہ بیانات کے ذریعے مقتدر حلقوں کو یہ پیغام واضح طور پر دے چکے ہیں۔ کہ اگر ان کو موقع ملا تو وہ چھ ماہ میں ملک کے مسائل حل کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے بیان میں ان کا کہنا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے جتنا ساتھ عمران خان کا دیا ہے اگر اس کا کچھ حصہ بھی ان کی حکومت کو میسر ہوتا تو حالات بہت بہتر ہوتے۔

دنیا گروپ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر سلمان غنی کا کہنا ہے ان ہاوس تبدیلی کا آپشن بالکل موجود ہے اور یہ آئینی آپشن ہے اور زیادہ قابل عمل اس لئے ہے کہ موجودہ حکومت بہت کم نمبروں کے فرق سے برسر اقتدار آئی ہے، اس کے لئے آئندہ چند ماہ بہت اہم ہیں۔

سلمان غنی کے خیال میں اگر پاکستان تحریک انصاف خود سے ان ہاوس تبدیلی کی خواہش مند ہو تو ہمیں اسد عمر کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے اور اگر حکومتی پارٹی سے باہر دیکھیں تو شہباز شریف نا صرف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں بلکہ وہ چین، ترکی اور کئی دوسرے ممالک کے ساتھ بھی بہتر ذاتی تعلقات رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ توانائی کے بحران پر قابو پانے، معاشی مسائل حل کرنے اور سی پیک کو آگے بڑھانے میں بھی اپنی کارکردگی دکھا چکے ہیں۔

سلمان غنی کا خیال ہے کہ اگر وفاق میں کوئی تبدیلی آئی تو ایسا ممکن ہی نہیں ہو گا کہ پنجاب میں تبدیلی نہ آ سکے۔ اس سوال کے جواب میں کہ وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ تو کہہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم تو عمران خان ہی رہیں گے۔ سلمان غنی کا کہنا تھا کہ پاکستانی تاریخ میں نواز شریف سمیت ہر جانے والے کو یہی لگتا رہا ہے کہ اس کی کرسی مضبوط ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کالم نگار نوید چوہدری کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف ان ہاوس تبدیلی کو سازشی تھیوریوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے، ”میری رائے میں پاکستان میں ان ہاوس تبدیلی کے سو فی صد امکانات موجود ہیں، دیکھنا صرف یہ ہے کہ سیاسی قوتیں اپنا دباو کس طرح اور کس حد تک بڑھا پاتی ہیں۔ اور اگر یہ دباو ایک خاص حد سے تجاوز کر گیا تو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جسے اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، وہ اس آپشن کو نظر انداز نہیں کر سکے گی۔‘‘

نوید چوہدری کے بقول یہ محض اتفاق نہیں کہ لانگ مارچ کے موقع پر نواز شریف، زرداری اور کیپٹن صفدر جیلوں سے باہر ہیں اور مریم کو بھی باپ کی تیمارداری کی اجازت مل رہی ہے۔

نوید چوہدری کو لگتا ہے کہ سیاسی موسم بدل رہا ہے، پہلے مریم کے نام پر فیصلہ سازوں نے کانٹا لگا دیا تھا، اب کچھ وقت کے بعد ان کو اقتدار میں لانے کی بات کی جا رہی ہے۔ نوید چوہدری کا خیال ہے کہ وفاق میں تبدیلی کے بعد ملک کی معاشی اور سفارتی ٹیم کے ساتھ ساتھ بہت سوں کی رخصتی عمل میں آ سکتی ہے۔

نوید چوہدری کے مطابق حکومت کی تبدیلی عدالتی عمل کے ذریعے بھی ممکن ہو سکتی ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ پہلے مرحلے میں کچھ عرصے کے لیے قومی حکومت قائم ہو گی اور قومی استحکام کے بعد ‘نئے منصفانہ انتخابات‘ کے ذریعے نئی حکومت قائم کر دی جائے گی۔

صحافی محمل سرفراز کا کہنا ہے کہ تمام تر سازشی تھیوریوں کے باوجود وہ نہیں سمجھتیں کہ مستقبل قریب میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی ٹھوس امکان ہے۔ ان کے خیال میں اپوزیشن کے اہداف اور حکمت عملی کے حوالے سے خود اپوزیشن کی صفوں میں کوئی خاص اتفاق رائے دیکھنے میں نہیں آ رہا۔

محمل سرفراز کا خیال ہے کہ حالیہ لانگ مارچ کے نتیجے میں ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کے تحت زیادہ سے زیادہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار کی تبدیلی عمل میں آ سکتی ہے، البتہ اگر فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ عمران خان کے خلاف آ جاتا ہے تو پھر وزارت عظمی میں تبدیلی کی بات ممکن ہو سکتی ہے۔

روزنامہ ایکپریس کے کالم نگار خالد محمود رسول کا کہنا ہے کہ وہ ان ہاوس تبدیلی کے کوئی امکانات نہیں دیکھ رہے۔ ان کے بقول پاکستان تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن عمران خان کے علاوہ کسی دوسرے نام کو وزارت عظمی کے لئے قبول نہیں کر سکیں گے۔ اس لئے عمران حکومت کو اپنی پالیسیوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کچھ مزید وقت ملنا چاہیے وگرنہ قبل از وقت تبدیلی بہت ساری ناکامیوں کے حامل عمران خان کو”سیاسی شہید‘‘ بنا کر دوبارہ سٹریٹ پاور کو ساتھ ملانے میں کامیاب کر دے گی۔