بتایا جاتاہے کہ نیویارک میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم نے سوا گھنٹے تک ملاقات کی۔ دونوں طرف سے باہمی روابط کو مضبوط کرنے کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے کے ملک میں مداخلت کی شکایت کی۔ اس ملاقات سے قبل بھارت میں زبردست ہنگامہ جاری رہا ہے۔ میڈیا کے علاوہ متعدد سیاسی لیڈروں اور تبصرہ نگاروں کی طرف سے مسلسل یہ الزام عائد کیا جاتا رہا ہے کہ اس ملاقات کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ان لوگوں کے خیال میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سرد مہری کا شکار رہنا چاہئے اور بھارت کی ساری شرائط تسلیم ہونے کے بعد ہی کسی قسم کی اعلیٰ سطحی ملاقات ہونی چاہئے۔
اس سوال پر متعدد حلقوں کی جانب سے وزیر اعظم من موہن سنگھ پر تند و تیز تنقید بھی کی جا رہی ہے۔ نئی دہلی میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گجرات کے وزیراعلیٰ اور بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی نے پاکستانی وزیر اعظم سے ملاقات کو بھارتی خون کا سودا کرنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے پاکستان کے خلاف انتہائی اشتعال انگیز باتیں کرتے ہوئے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے مطالبہ کیا کہ آپ اگر مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو پاکستانی وزیر اعظم سے ان پانچ بھارتی جوانوں کے سر ہی واپس مانگ لیں، جنہیں قتل کر کے پاکستانی فوج ان کے سر اپنے ساتھ لے گئی تھی۔
یہ مضحکہ خیز فقرے بازی اس افسوسناک سانحہ کی طرف اشارہ تھا جس میں گزشتہ ماہ لائن آف کنٹرول میں بھارتی سرحد میں 5 بھارتی فوجیوں کی لاشیں ملی تھیں۔ بھارت کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کی اسپیشل فورسز نے انہیں قتل کیا ہے اور ان کے سر کاٹ کر ساتھ لے گئے ہیں۔ بعد میں اس سرکاری موقف کو تبدیل کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ لشکر طیبہ کے انتہا پسندوں نے ان فوجیوں کو قتل کیا تھا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کے درمیان ملاقات کا اہم ترین موضوع دہشت گردی تھا۔ دونوں ملکوں کے قائدین نے بامقصد بات چیت کرنے کی بجائے زیادہ وقت الزامات کو دہرانے میں صرف کیا۔
تاہم مذاکرات سے کچھ دیر قبل پشاور میں ہونے والے دھماکوں نے اس معاملہ کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا ہے۔ بھارت یہ بہانہ بنا کر پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مسلسل شبہات کا شکار کر رہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ساتھ لڑنے کے لئے انتہا پسندوں کو روانہ کرتا ہے۔ بھارتی قائدین کا یہ مؤقف بھی ہے کہ پاکستان جماعت الدعوة اور لشکر طیبہ جیسی تنظیموں کی اعانت کرتا ہے۔ یہ تنظیمیں بھارت میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ خاص طور سے ممبئی حملوں کے حوالے سے بھارت مسلسل حافظ سعید کو مورد الزام ٹھہراتا رہا ہے۔ تاہم اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے اس کی طرف سے کبھی مناسب ثبوت فراہم نہیں کئے گئے۔
Hafiz Saeed
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں عدالتیں حافظ سعید یا ان کی جماعت کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ ان سطور میں بارہا یہ کہا جا چکا ہے کہ جماعت الدعوة اور اس قبیل کی ان تمام جماعتوں کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے جو سرحد پار انتہا پسندوں کی عملی مدد کرنے پر اصرار کرتی رہیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ماضی میں پاکستان نے کسی حد تک کشمیر میں آزادی کی تحریک کو مؤثر بنانے کے لئے ایسی مذہبی تنظیموں کی حوصلہ افزائی کی تھی جو بھارت کے خلاف صف آرا ہونے کے لئے اقدام کرتی تھیں۔ تاہم اب پالیسی کو تبدیل ہوئے ایک دہائی سے زیادہ مدت بیت چکی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے آغاز کے بعد سیاسی اور عسکری حلقوں میں یہ تفہیم پیدا ہو چکی ہے کہ انتہا پسند گروہوں کی حمایت کرنے سے مسائل خود اپنے گلے پڑ جاتے ہیں۔ ایک دہائی میں پاکستان نے دہشت گرد شدت پسند گروہوں کے خلاف جنگ میں بے شمار جانی اور مالی نقصان اٹھایا ہے۔ ایسی صورت میں اگر بھارت کی طرف سے مسلسل یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے تو اسے بے جواز کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس پاکستان میں دہشت گردی کی متعدد ایسی وارداتیں رجسٹر کی گئی ہیں، جن کی پاکستان میں سرگرم کسی گروہ نے ذمہ داری قبول نہیں کی اور نہ ہی ان تنظیموں سے ان کا تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔
ایسے میں اگر بعض حلقے یہ باور کرنے لگتے ہیں کہ یہ کارروائیاں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے تعاون سے کی گئی ہوں گی تو اس کو یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان نے کبھی پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے بھارت کے رول پر بہت زیادہ سیاسی اور سفارتی ہنگامہ آرائی نہیں کی ہے۔ اس سے اہل پاکستان کے جذبہء خیر سگالی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کی طرف سے اس قسم کی خیر سگالی معدوم ہے۔ ممبئی حملوں اور حافظ سعید پر الزامات کے حوالے سے بھارت یہ تسلیم کر چکا ہے کہ اس حوالے سے انٹیلی جنس رپورٹیں تو موجود ہیں لیکن کوئی ٹھوس اور واضح ثبوت موجود نہیں ہوتے۔
Prime Minister
اسی لئے ان معلومات کو بھارت کی طرف سے محض الزام تراشی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کے پاس بھی متعدد واقعات کے حوالے سے بہت سی انٹیلی جنس موجود ہوتی ہے تاہم اسے دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الزامات کے جواب میں وزیر اعظم نواز شریف کو نیویارک میں یہ وضاحت بھی کرنا پڑی ہے کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت قائم ہے اور تمام فیصلوں اور معاملات کا ذمہ دار وزیر اعظم ہے۔ اس کے باوجود بھارت کی طرف سے الزام تراشی کی بنیاد پر سیاست کرنے کا سلسلہ کم ہونے میں نہیں آتا۔ اب یہ صورتحال اس قدر سنگین اور مشکل ہو چکی ہے۔
کہ اس علاقے کے امن میں دلچسپی رکھنے والی بڑی طاقتوں کو بھی اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں انتخابات سر پر ہیں اور کانگریس کی حکومت کمزور اور دفاعی پوزیشن پر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بھارت ایک بڑی اور مستند جمہوریت کا دعویدار بھی ہے۔ اس کے باوجود اگر اس کے لیڈروں کو لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور پاپولر ووٹ لینے کے لئے پاکستان دشمن رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے تو یہ بھارتی سیاست دانوں کی صلاحیت اور نیت پر ایک سنگین سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر بھارت میں ایک ایسا سیاسی لیڈر مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔
جس پر گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہونے کا الزام عائد ہے۔ انہی جرائم کے شبہ کی وجہ سے نریندر مودی کو امریکہ ویزا دینے سے انکار کرتا رہا ہے۔ اب یہ انتہا پسند لیڈر بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم بننے کا امیدوار ہے اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ انتخابات میں وہ یہ عہدہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جائے۔ان حالات میں کراس بارڈر دہشت گردی اور انتہا پسندی سے زیادہ بھارت کی سلامتی اور جمہوریت کو اندرون ملک پلنے والی نفرت اور فرقہ پرستی سے خطرہ لاحق ہے۔ اگر بھارتی سیاست دان اس صورتحال کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے میں بانجھ ثابت ہو رہے ہیں تو بھارت کے دانشور اور اہل فکر کو ضرور اس صورتحال پر غور کرنا چاہئے۔