تحریر : شیخ خالد زاہد پاکستان منجدھار میں پھنسی ہچکولے کھاتی کسی کشتی کی طرح گزشتہ کئی سالوں سے ایک جگہ کھڑا ہے اور وہ جگہ ہے قانون اور لاقانونیت کے درمیان کی۔ قانون اپنی گرفت ہلکی سی چھوڑتا ہے تو لاقانونیت جو بہت زیادہ طاقتور اور چوکنی ہے فوری طور پر حرکت میں آجاتی ہے اس کے برعکس قانون کی گرفت سخت بھی ہوجائے تو لاقانونیت نے ایسے بہت سارے راستے بنا رکھے ہیں جہاں سے وہ انتہائی صفائی سے نکل جاتی ہے ۔ دراصل اسکی اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں برس ہا برس سے لاقانونیت کا راج ہے اور قانون ہمیشہ سے ہی بہت کمزور رہا ہے (جسکی ایک وجہ آئین کی معطلی بھی ہے) ۔ اب جبکہ قانون کو طاقتور بنانے کی کوشش کی جارہی ہے تو قانون کو شائد یقین ہی نہیں آرہا کہ اسے طاقتور دیکھنے کیلئے پاکستان کی عوام کس بے چینی کے دور سے گزر رہی ہے۔بد قسمتی سے حکمران خاندان (شریف فیملی) ایسے وقت میں حکومت میں ہیں جب قانون اپنے زور و شور سے اطلاق کی جانب پیشرفت پر گامزن ہوا ہے، جسکی وجہ سے شائد ابھی تک یہ لوگ سب مذاق سمجھ رہے ہیں تو دوسری طرف انکی حوائیاں اڑی جا رہی ہیں۔ قانون کی ذد میں آنے والے پاکستان کے طاقتور ترین لوگ یہ سمجھ رہے ہیں بلکہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہمارا ہی تو بنایا ہوا قانون ہے اور ویسے بھی پاکستان میں قانون ساز اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھتے آئے ہیںیہ بھی قانون کی ہی بدقسمتی رہی ہے۔ جیسا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے جو قانون کیساتھ ہوا ہے وہ ہم سب پاکستانیوں کیلئے انتہائی شرمندگی اور ندامت کا باعث بنا ۔ بروقت فیصلے پر نظر ثانی کرلی گئی ورنہ ایسا کام کرنے والوں کے ساتھ جو ہونا تھا وہ پھر ساری دنیاتو دیکھتی مگر تماشہ پاکستان کا ہی بننا تھا۔
پاکستان کو اندرونی خلفشاروں میں الجھائے رکھنے میں یقیناًبیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے تاکہ وہ اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہوسکیں۔ جیساکہ بھارت کا کنٹرول لائن پر آئے دن فائرنگ کر کے مقامی لوگوں کو ناصرف ہراساں کرنا بلکہ ان کی زندگیوں کو موت کے ہاتھوں فروخت کرنا ہے۔ دوسری طرف ہمارا ایک ہم مذہب ملک افغانستان بھی بھارت کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور اب تو امریکی صدر بھی بھارت کی زبان میں پاکستان سے بات کرتے دیکھائی دے رہے ہیں۔
ان سارے معاملات کا جہاں سب سے برا اثر پاکستان کی معیشت پر پڑ رہا ہے تو دوسری طرف ہماری پروان چڑھتی نسل بھی اس ہچکولے کھاتی کشتی کی سواری سے نالاں دیکھائی دے رہی ہے۔ اس سارے ماحول میں صرف چین وہ ملک ہے جو بہت خاموشی سے اپنے کام پر دھیان دیئے ہوئے ہے۔ اللہ پاکستان کو آستین کے سانپوں سے بچائے ۔ پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی کسی معمے سے کم نہیں ہے کیوں پاکستان میں قانون کی گرفت میں کمزور اور بے یارومددگار لوگ ہی آتے ہیں۔ اس میں قانون کا بھی کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ قانون عدالت کی چار دیواری سے تو باہر نکلتا ہی نہیں اور جو لوگ قانون پر عمل درامد کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں وہ کیا خوب نبھا رہے ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ہمارے ملک کہ جو ذمہ دار ہیں وہ سب کہ سب اپنی اپنی سیاست چمکانے میں سرگرم عمل ہیں ۔ موجودہ ماحول کا بغور جائزہ لیا جائے تو بہت واضح نظر آتا ہے کہ ساری سیاسی جماعتیں اگلے انتخابات کو ذہن میں رکھ کر بہت دھیمے دھیمے لہجے میں ایک دوسرے کی مخالفت یا ساتھ دیتی دیکھائی دے رہی ہیں۔
پاکستان کبھی پاکستان بنا ہی نہیں یہ تو مختلف خاندانوں یا پھر مخصوص اداروں کے تابع رہا ہے جس کی وجہ سے نظریہ پاکستان پیدائش کیساتھ ہی مفلوج ہوگیا اور پھر ہوتے ہوتے زندہ لاش بن کر زندہ ہے ۔ اس زندہ لاش کے نام پر ہر بار انتخابات کرائے جاتے ہیں اور انتخابات میں کامیاب ہوکر اس لاش کو اسی جگہ چھوڑ کر اپنی اپنی جیبیں گرم کی جاتی ہیں۔ پاکستان سے محبت کرنے والوں کی محبت کا حال ہم سب کے سامنے ہی ہے کہ علاج کروانا ہے تو پاکستان میں نہیں ہوسکتا ، سیروتفریح سے لے کر جتنے بھی نجی کام ہیں سب کے سب وطن عزیز سے باہر اور وہ بھی قومی خزانے سے یہاں تک کے حج اور عمرے بھی سعودی عرب کے سرکاری دوروں کے دوران کئے جاتے ہیں یا پھر دورے ہی ان کاموں کی ادائیگی کیلئے رکھے جاتے ہیں۔
پاکستان آج تک سیاست دانوں کی اہلیت اخذ نہیں کر سکا پچھلے ۷۰ سالوں میں گنتی کے ایسے کارنامے ہونگے جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جو پاکستانی سیاست دانوں کی پہچان ہوں۔ پاکستان میں جمہوریت کی قلت کے باعث شہری ڈکٹیٹرشپ پروان چڑھتی رہی جو کہنے کو تو جمہوریت کے علمبردار تھے مگر اپنی پرورش کرنے والوں کا اثر لئے بغیر نہیں رہے سکے ہیں اور پاکستان کو بغیر وردی کی ڈکٹیٹرشپ کا ہی واسطہ رہا ہے۔ کوئی بھی اس بات سے انکار نہیں کریگا کہ پاکستان کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں مخصوص افراد کی بدولت سیاست کر رہی ہیں شائد ہی کوئی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت ملے جو اپنے عملی کارناموں اور عوام کی خدمت کے بل بوتے پر سیاسی منظرنامے پر موجود ہو۔
جس طرح سے حالات کی بہتری کی کوئی صورت نہیں دیکھائی دے رہی کیونکہ کوئی بھی کچھ ماننے کیلئے تیار نہیں ہے تو دوسری طرف پاکستان کی ہچکولے کھاتی اسی طرح سے ڈگمگاتی رہے گی۔ کشتی کے دگمگانے کا فائدہ بھی ان سیاست دانوں کو ہی پہنچنے والا ہے ناکہ ہم عوام کو ہم اس ڈگمگاتی کشتی کو اپنی اپنی زندگیوں پر کھیل کر بچانے میں لگے ہیں اور ہماری ریاست کے حکمران اس کشتی کو اور زور زور سے ہلانے میں مصروف ہے۔ پاکستان کو منزل کی جانب گامزن ہونے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان کابھٹکنا ختم ہو اور وہ سب لوگ بھٹکنا شروع کریں جو پاکستان کے آئین سے تضاد رکھتے ہیں اور اپنی بالادستی پر آئین کی بالادستی کو پسند ہی نہیں کررہے۔ جسکی وجہ پاکستان کو نجی ملکیت تصور کیئے جانا ہے۔ آج جبکہ دنیا کے ممالک اپنے شہریوں کو ہر ممکن سہولیات دینے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہی ہے تو پاکستان ۱۹۴۷ کی طرح یا پھر ۱۹۷۱ کی طرح پریشان کھڑا ہے۔