تحریر : علی عمران شاہین وطن عزیز اور جنوبی ایشیا میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ کم سرد میدانی علاقوں میں وسط ایشیا خصوصاً روس کے منجمد ساحلی علاقوں سائبیریا وغیرہ سے سخت سردی کے باعث موسمی پرندوں کی بڑی تعداد آنے لگتی ہے۔ ان پرندوں کامسکن عموماً ایسے علاقے ہوتے ہیں’ جہاں کم سردی کے ساتھ پانی کے ذخائر بھی موجود ہوں کیونکہ پانی ہی تو زندگی ہے۔ ان پرندوں میں مرغابی کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے تواس کے ساتھ بڑی تعداد ”تلور” (Houbara bustard) نام کا پرندہ بھی آتا ہے۔ مرغابی جھیلوں’دریاؤں، نہروں کے کناروں اور کھلے تالابوں پراترتی ہے جبکہ تلور نسبتاً ریتلے لیکن خشک اور جھاڑی دار علاقوں میں پڑاؤ ڈالتا ہے۔ ان پرندوں کی آمد کے ساتھ ہی حکومت پاکستان محدود شکار کے فیس لے کر لائسنس جاری کرتی ہے۔ ان پرندوں کے اصل مساکن جن ملکوں میں ہیں ،ان کارقبہ بہت وسیع ہے تووہیں انسانی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے’سو یہاں شکار نہ ہونے کے باعث پرندوں کی نسل ہر سال ہمیشہ بڑھتی ہی ہے۔اس موسم کے آتے ہی ملک وبیرون ملک سے شکاری یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
مرغابی کا شکار نسبتاً کافی مشکل لیکن سستا کھیل ہے اسی لئے یہ پاکستانیوں کا شوق ہے ۔اس کی نسبت تلور کا شکادن کی روشنی ‘ خشک وریتلے علاقے میں بغیر فائرنگ سدھائے شکاری عقابوں اور تیز رفتار جیپوںمیں ہوتاہے۔یوں یہ شکار مہنگا لیکنزیادہ دلچسپ ہوتاہے۔شکار کے موسم کی آمد کے ساتھ ہی کئی دھائیوں سے پاکستان سے محبت کرنے والے عرب ملکوں سے مہمان اور شاہی خاندانوں کے افراد خصوصی طورپرچل کرپاکستان آتے ہیں ۔ گزشتہ کئی سال سے وطن عزیز میں ایک مخصوص لابی نے ہاہاکارمچارکھی ہے کہ اس ”غیرقانونی” شکارکی وجہ سے تلورپرندے کی نسل ختم ہورہی ہے، لہٰذا اس کے شکار پربھی نہ صرف مکمل پابندی لگائی جائے بلکہ گنے چُنے عربوں کو خاص طورپر روکاجائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لابی پاکستانیوں کے شکار مرغابی کا نام کبھی نہیں لیتی۔قضیہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ بلکہ سب سے بڑے ادارے سپریم کورٹ تک جا پہنچا تو وہاں سے بھی پابندی عائد ہوئی’حکومت نے نظرثانی کی اپیل دائر کی تو اجازت مل گئی ، اب اسی اجازت نامے کے ساتھ شکار ہو رہا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے جن علاقوں ‘ بالخصوص بھکروغیرہ جہاں تلور کاشکارہوتاہے’وہاں کے باسی ان مہمانوں کاخصوصی انتظار کرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ جن زمینوں پرخیمے گاڑتے’قیام کرتے’گاڑیاں چلاتے اور شکار کرتے ہیں، مالکان کو بدلے میں بھاری معاوضہ دے کر جاتے ہیں۔رحیم یارخان کی ہی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں اس وقت متحدہ عرب امارات کے شاہی شیوخ کے محلات ہیں۔یہاں وہ کبھی کبھار ہرن کے شکار کے لیے آتے ہیں۔رحیم یارخان میں انہوں نے اپنے خرچ سے شاندار سڑکیں’ ہسپتال اور دیگر سہولیات مہیاکی ہیں۔بھکر میں 17دسمبر2016کو وزیر اعلیٰ پنجاب قطری شہزادے جاسم کے عطیہ کردہ ہسپتال کا سنگ بنیاد رکھ چکے ہیں لیکن وطن عزیزکے سیاستدان ہوس اقتدار میں مکمل اندھے ہو چکے ہیں۔یہ اناپرستی اور شکم پرورسیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ لیبیا’ مصر’کویت جیسے کتنے مسلم ممالک جوکل تک ہمارے مثالی دوست تھے’اب وہاں پاکستانیوں کاداخلہ بندہے۔داستان ستم اب ان خلیجی ملکوں تک جا پہنچی ہے جہاں سے آئے زرمبادلہ کی بنیاد پر ہی ملکی معیشت چل رہی ہے۔ کل کی رپورٹ ہے کہ پاکستان کو بیرونی دنیا سے آنے والے زرمبادلہ میں سعودی عرب کازرمبادلہ پہلے نمبرپرہے جہاں 30لاکھ کے لگ بھگ پاکستانی برسرروزگار ہیں۔ قطربھی ایک ایسا ہی ملک ہے جہاں بڑی تعدادمیں پاکستانی برسرِروزگارہیں اور یہی قطر اب ہمیں ہماری اپنی پیدوار سوئی گیس سے بھی سستے نرخ پرایل این جی گیس دینے کا وسیع معاہدہ کر کے فراہمی شروع کرچکاہے۔ اس دنوں جب سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کاقضیہ زیربحث ہے’ قطر اورپھرسعودی عرب سے آئے گنتی کے چند مہمانوں کے تلور کے شکار کے حوالے سے انتہائی گھٹیااور بازاری قسم کی خبریں پھیلائی جا رہی ہیں۔
Taloor Hunting
خیبرپختونخوا حکومت نے ان مہمانوں کو اپنے ہاں شکار کی اجازت سے انکارکیا’حالانکہ یہ لوگ وہاں کبھی شکارکے لیے گئے ہی نہیں کیونکہ تلورکامسکن تو پنجاب ہے۔نجانے کس نے صوبہ خیبرکی حکومت کو شکار کے لیے اجازت کی درخواست دی اورکیوں دی؟ پھر کہانیاں پھیلائی جانے لگیں کہ یہ لوگ ساتھ اپنی خواتین کیوں نہیں لاتے؟پھرکہاگیا کہ نصف شب ان کے خیموں سے نسوانی چیخیں سنائی دیتی ہیں کیونکہ یہ پرندہ کھانے والے کی نفسانی خواہش بہت بڑھ جاتی ہے اوریہ لوگ یہاں جیسے ہماری عزتیں پامال کرتے ہیں۔اس حوالے سے ہر وقت جلی کٹی سنانے والے ایک صحافی کے سوشل میڈیا نیٹ ورک نے بغیر کسی نام یاتعارف کے انتہائی گھٹیا اور غلیظ داستان اور وہ بھی ایک ریٹائرڈ فوجی میجر کی زبانی بیان کی،جس کانہ کوئی سرتھااورنہ پیر۔ پھراسے مخصوص لابی کی جانب سے خوب پھیلایا گیا۔سوال یہ پیداہوتاہے کہ آخر وہ کون ساایسا پاکستانی باپ یابھائی ہوگا جو اپنی 12یا14سالہ بہن یا بیٹی چند روپوں کے لیے فروخت کردے گا۔ یہ گھٹیاالزام عرب مہمانوں پ رکم اپنی قوم پرزیادہ ہے لیکن ہمارے لوگوں کو ہوش ہی نہیں کہ وہ کیا کہے جارہے ہیں۔اوبھئی!عرب شہزادے یامہمان اپنی خواتین کو شکار کے لیے ساتھ کیسے لاسکتے ہیں؟ہمارے اپنے لوگ جب شکار کے لیے کئی کئی روز ویرانوں ‘جنگلوں اور جھیلوں پر بسیرا کرتے ہیں تو کیاوہ سب اپنے ساتھ اپنی بیویاں لے کر قیام کرتے ہیں؟ ظاہر ہے یہ ممکن ہی نہیں ۔ اگر گھر والوں کے لئے یہ ممکن نہیںتودوسرے ملک جاکر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟عربوں کی توروایات بھی اس حوالے سے سب کے سامنے ہیں۔عرب دنیاکی بے شمار مقتدراور حکومتی شخصیات میں سے سوائے دویاچارکے آج تک کسی نے اپنی خواتین کو محفل وبازار کی زینت نہیں بنایا۔ان کے ملکوں میں چاہے جتنا بڑا سربراہ حکومت آجائے یا وہ جتنے بڑے ملک کے دورے پر جائیں ‘ اپنی خواتین کوان تماشوںسے دوررکھتے ہیں۔جب وہ انہیںکہیں زینت محفل نہیں بناتے توکیاوہ انہیںپاکستان کے صحراؤں میں خاک چھاننے کے لیے لائیں گے۔
عجیب کہانی ہے کہ نایاب تلور کی نسل ختم ہو رہی ہے حالانکہ یہ پرندہ تو یہاں کاباسی ہی نہیں تو نسل ختم ہونے کا ڈر کاہے کا…اورجس خطے میں اس کی پیدائش وافزائش ہوتی ہے’ وہاں اس کا کوئی شمار نہیں۔اگراس کی ہمارے ہاں آمد کم ہوئی تووجہ شکارنہیں،ماحولیاتی تباہی ہے۔ 1960میں سندھ طاس معاہدے سے 3دریا بیچے گئے توہمارے وہ علاقے جو کہ ان دریاؤں یعنی ستلج’بیاس اور راوی سے سیراب ہوتے تھے’میں خاک اڑنے لگی۔ ریاست بہاولپور نے پاکستان کوقیام کے ابتدائی سخت وقتوں میں بھاری سرمایہ دیا، پھرالحاق بھی پاکستان سے کردیا۔جواب میں ہم نے ستلج بیچ دیا۔ بہاولپور اور گردونواح میں حشر کاسماںہے؟لاہورراوی کنارے آبادہے۔حالت زار یہ ہے کہ زیر زمین پانی دن بدن تیزی سے نیچے سے نیچے جارہاہے۔ چند سال پہلے تک سب لوگ ٹیوب ویل اور بورکے نلکے کا ہی پانی پیتے تھے ‘جسے اب منہ لگانا محال ہے ۔ فلٹریشن پلانٹ ‘ پانی بیچنے والی دکانیں ‘کارخانے کھل چکے ، دیکھتے ہی دیکھتے سارا ملک صاف پانی کے لیے بوتلیں اٹھائے پھر رہا ہے۔
ذرا سوچئے!اگردریاؤں کی حالت زار یہی رہی تو چند سال میںکیاحشر ہوگا؟ بارش ‘پانی اورجُملہ حیاتیات کانظام براہِ راست سبزے اور جنگلات کے ساتھ جڑاہے۔موسمی و دیسی پرندے سبزے اور پانیوں پر ہی آتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں صرف صنوبر کے درخت لگ بھگ10لاکھ تھے جو کہ اب بمشکل1لاکھ بچے ہیں۔ماہرین ماحولیات و معیشت کے مطابق ہر ملک کے لیے اس کے رقبہ کا25فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکاہونا ضروری ہے جبکہ ہمارا یہ رقبہ محض 3فیصد رہ گیاہے جو قیام پاکستان کے وقت 10فیصد تک تھا۔یہ سب تباہی کیا عرب مہمانوںنے مچائی یا اپنے لوگوں نے؟ اس پرکوئی بات کیوں نہیں کرتا؟بھارت اس وقت دریائے چناب کے درپے ہے،جس پر اس کے درجنوں ڈیم زیرتعمیرہیں۔ اس نے جہلم اور سندھ پربھی وار شروع کررکھے ہیں ،ان دریاؤں کا رخ تک بدلاجا رہا ہے۔ زیرکاشت 16 لاکھ ایکڑ رقبہ بنجر ہوچکا، ہمارے دیسی پرندے و جانور ختم ہو چکے۔
عجب داستان الم ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا نہری زرعی نظام رکھنے والا زرعی ملک اپنے دشمن بھارت سے سبزیاں خریدنے پر مجبور ہے۔ستم بالائے ستم کہصدیوں سے آنے اور شکارہونے والے بدیسی پرندے پراس قدر داستانیں بنائی اور سنائی جارہی ہیں کہ خدا کی پناہ… حدتویہ ہوئی کہ بھکرمیں سیاسی مخالفت میں دوسرے علاقوں سے چندلوگ لاکر عرب مہمانوں کے خلاف مظاہرے اور فائرنگ تک کروادی گئی۔ہمارے ہاںایسے نابغے موجودہیں جو غیرملکی سیاحوں کی آمد کی آڑ لے کر شراب کی کھلے عام فروختگی کی اجازت طلب کرتے پھرتے ہیں کہ اس سے معیشت مضبوط ہوگی لیکن وہ چند دوستوں کے چند پرندوں کے شکار پرچیں باجبیں ہیں اور ملک تماش گاہ بنادیاگیا۔یادرکھئے! ہمارے ہاں جو چند عرب مہمان آپ کی محبت میں آتے ہیں’ان کی آمد ہمارے لیے فرحت کاباعث ہونی چاہیے کہ وہ بھارت وغیرہ جاسکتے تھے لیکن یہاں آ گئے۔ مغربی دنیا پاکستانیوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے’کس سے پوشیدہ ہے اور ہم گھٹیا و بے بنیاد حرکات کے ساتھگنے چُنے عرب دوستوں سے بھی محروم ہوتے جارہے ہیں۔جب یہ عرب کسی دوسرے ملک سے کوئی معاہدہ کریں پھر بھی ہم انہیں ہی دوش دیتے ہیں،اپنی حرکتوں پر غور کبھی نہیں کرتے ۔آخرہم کب سمجھیں گے ‘کب آنکھیں کھولیں گے۔
Logo Imran Shaheen
تحریر : علی عمران شاہین (برائے رابطہ (0321-4646375