تحریر : عبدالرزاق پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر جہاں بے شمار سپیڈ بریکر ہیں وہیں جاگیر داری نظام بھی پاکستان کی ترقی کے راستے میں ہمالیہ پہاڑ بن کر کھڑا ہے ۔جاگیرداری نظام کے مہلک جراثیم کچھ یوں وطن عزیز کے سماجی ،معاشی اور سیاسی ڈھانچے میں داخل ہو چکے ہیں کہ ان کے زہر سے ملکی معاشرت اور تہذیب و تمدن کا نقشہ ہی بدل چکا ہے ۔ایوب خان نے انیس سو انسٹھ میں زرعی اصلاحات متعارف کروائیں اور حدود ملکیت پانچ سو ایکڑ مقرر کی اور بعد ازاں بھٹو اور ضیا نے بالترتیب ایک سو پچاس اور سو ایکڑ مقرر کی لیکن انیس سو نوے میں شریعت کورٹ کے ایک فیصلہ کی روشنی میں زرعی اصلاحات کو غیر قانونی قرار دے دیا گیااور پھرجاگیرداروں کو کھل کر غریب کسانوں اور ہاریوں کے حقوق سے کھلواڑ کرنے کاموقع میسر آ گیا اور انہوں نے دل کھول کر ان مفلوک الحالوں کا معاشی قتل کیا۔سچ تو یہ ہے کہ ملک بھر میں کسانوں اور چھوٹے کاشت کاروں کا براحال ہے لیکن سندھ میں بالخصوص یہ صورتحال بہت ہی گھمبیر صورت اختیارکر چکی ہے۔ غریب کسان اور ہاری دنیاوی آسائشوں،سہولتوں اور لذتوں سے کہیں دور غلامی کا طوق گلے میں سجائے بد تر زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں ۔ان غریبوں کی اولاد تعلیم جیسے قیمتی زیور سے قطعی محروم جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہی ہے۔
یہ غریب اور محنت کش دن رات جان جو کھوں میں ڈال کر محنت شاقہ کی چکی میں پس کر ان جاگیرداروں کے بینک بیلنس میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور پھر یہ جاگیر دار ان مسکینوں کی خون پسینے سے کمائی ہوئی دولت کے بل بوتے پر الیکشن کی راہداریوں سے گزر کرلذت اور عیش و نشاط کے سنگ اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔اور پھر ایسا نظام ترتیب دیتے ہیں جس سے غریب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کی غلامی قبول کرنے پر مجبور ہو جائے۔ان کے اقدامات ایسے ہوتے ہیں جس سے امیر تو امیر تر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن غریب کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔بدقسمتی سے یہ سلسلہ قیام پاکستان سے ہی چلا آ رہا ہے اور آج بھی غریب ہاری اور کسان ان جاگیرداروں کے ہاتھوں یرغمال ہے اور اس کی نجات کی بھی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی کیونکہ جاگیر د اراس وقت تک بھی معیشت اور سیاست کے میدان کے شہسوار ہیں اور سیاسی و معاشی قوت کا سر چشمہ ہیں۔
Sindh
اگرچہ پورا ملک ہی اس قسم کی صورتحال سے دوچار ہے لیکن جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کی صورتحال زیادہ گھمبیر ہے۔بالخصوص سندھ میں تو غریب ہاری کیڑے مکوڑوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں۔ سندھ میں غریب ہاری کو زمین کرایہ پر یا پٹے پر دینے میں جو نا انصافی روا رکھی جاتی ہے بیان سے باہر ہے۔کتنی عجیب بات ہے کہ پاکستان میں پینسٹھ فیصد لوگ جتنی زمین کے مالک ہیں ان کے مقابلے میں صرف ایک فیصد لوگ اتنی ہی زمین کے مالک ہیں۔وقت کے ساتھ ساتھ قابل کاشت رقبہ میں کمی کی وجہ سے غریب کسان کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مذید مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ان حالات میں غریب ہاری حکومت سندھ سے سراپا سوال ہے ۔کیا ہم پاکستانی شہری نہیں ہیں۔ ہمیں تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا کیوں میسر نہیں۔ ہمار ے بچے بے لباس کیوں گھومتے ہیں۔ ہم پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے دو وقت کی روٹی کو کیوں ترس رہے ہیں۔ہم بنیادی ضروریات زندگی گیس،بجلی اور پانی سے کیوں محروم ہیں۔ ہم گدلا اور جوہڑوں کا پانی پینے پر کیوں مجبور ہیں۔ ہم پر تعلیم کے دروازے کیوں بند ہیں۔ جاگیر دار ہمارے ساتھ بھیڑ بکریوں جیسا سلوک کیوں کرتے ہیں ۔ یہ بھیڑیے ہماری بہو بیٹیوں کو ہوس زدہ نگاہوں سے کیوں دیکھتے ہیں۔ جب چاہا ہماری عزتوں کو تا ر تار کر دیا ایسا کیوں ہے۔ قانون خاموش کیوں ہے ۔ قانون کی عمل داری کہاں ہے۔
ہم کیوں اپنی محنت کا حقیقی معاوضہ لینے سے محروم ہیں۔ہمارے بچے کیوں تھر کی دل دہلا دینے والی گرمی میں پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے پیاسے مر جاتے ہیں ۔ ہمیں آزادی اظہار اور آزادی رائے کا حق کیوں نہیں ۔ہم کیوں مجبوری،بے بسی اور لاچارگی کی زنجیروں میں جکڑے ہوے ہیں۔ہمارے سینے زخم زخم کیوں ہیں۔ ہم ناگفتہ بہ حال کیوں ہیں۔ ہم بے آسرا کیوں ہیں۔ ہم التجا کریں تو کس سے کریں فریاد کریں تو کس سے کریں ۔ گریبان پکڑیں تو کس کا پکڑیں ۔ضمیر جنجھوڑیں تو وہ کس بے حس اور بے ضمیر کا ہو۔اپنا مقدمہ پیش کریں تو کس کے سامنے۔ہمارا قصور کیا ہے ۔ ہم بھی پاکستانی ہیں۔ آپ سے کہیں زیادہ محب وطن ہیں۔ہم بھی گوشت پوست کے انسان ہیں۔ ہم بھی دل رکھتے ہیں اس میں بھی ہزاروں خواہشیں مچلتی ہیں۔ہماری بھی آنکھوں میں کچھ خواب سجے ہیں سندھ کا اور خاص کر اندرون سندھ کا کلچر بھی عجیب ہے۔ تین سو کے قریب ایسے بااثر خاندان ہیں جنہوں نے غریب ہاریوں اور کسانوں کو اپنی اسیری میں لے رکھا ہے اور ان جاگیرداروں نے ان پر تعلیم کے دروازے بھی بند کر رکھے ہیں کیونکہ وہ خوف زدہ ہیں کہ اگر یہ غریب یا ان کی اولاد تعلیم سے آراستہ ہو گئے تو یہ ہمارے تسلط سے آزاد ہو جائیں گے اور اس خدشہ کے پیش نظر ان غریبوں کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے اور نہ جانے یہ سلسلہ کہاں جا کے رکے گا ۔ٖفیض نے کیا خوب کہا ہے۔
عاجزی سیکھی ،غریبوں کی حمایت سیکھی یاس و حرماں کے ،دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا سر د آہوں کے ، رخ زرد کے معنی سیکھے
جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں،وہ بے کس جنکے اشک آنکھوں کے بلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
آگ سی سینے میں رہ رہ کر ابلتی ہے نہ پوچھ۔اپنے دل پر مجھے قابو نہیں رہتا ہے۔ حقیقت حال تو یہ ہے کہ جب تک سندھ جاگیرداروں کے تسلط سے آزاد نہیں ہو گا اور جاگیردار معاشی اور سیاسی نقشہ سے بے دخل نہیں ہوں گے سندھ کی ترقی اور خوشحالی کے امکانات معدوم ہیں۔غور طلب بات ہے اک مدت سے میڈیا چیخ چیخ کر اور اینکرز گلا پھاڑ پھاڑ کر سندھ حکومت کی نااہلی اور بیڈ گورننس کے راگ الاپ رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ ایک عام فہم شخص بھی یہ بات بخوبی سمجھتا ہے کہ میڈیا کی تنقید کے اثرات حکومت پر ضرور اثرانداز ہوتے ہیں لیکن پھر کیا وجہ ہے کہ سندھ حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ وجہ صاف ظاہر ہے ۔ سندھ اسمبلی جاگیرداروں سے بھری پڑی ہے اور ان جاگیرداروں میں اتنی قابلیت ،اہلیت اور دور اندیشی ہی نہیں کہ معاملات کو ان کی حقیقی روح کے مطابق چلا سکیں۔جس دن سندھ اسمبلی کے درو دیوار ان نا اہل اور فرسودہ خیالات کے حامل جاگیرداروں سے آزاد ہو گئے اور کرپشن پر قابو پا لیا گیا سندھ کی گاڑی شاہراہ ترقی پر فراٹے بھرتی نظر آئے گی۔