پنڈی کا نیا بے نظیر ائیر پورٹ

Benazir Airport

Benazir Airport

تحریر : حاجی زاہد حسین خان

کل جب ہم اپنے بیٹے کو نئے بے نظیر ائیر پورٹ جو کہ فتح جھنگ کے قریب بنایا گیا ہے چھوڑنے گئے تو گاڑی والے کوئی سات ہزار مانگ رہا کوئی ساڑھے چھ ہزار آخر کار چھہ ہزار میں اتفاق ہوا راولپنڈی پہنچے پھر وہاں سے تیس کلومیٹر آگے جا کر ائیر پورٹ نظر آیا جو کہ بڑے وسیع و عریض ایریا پر بنایا گیا ہے۔ ڈبل منزل کھلی پارکنگ الیکٹرک لفٹس لائٹنگ کا خوبصورت منظر دیکھ کر ہمیں جدہ کا مطار عبدالعزیز یاد آگیا کھلی کشادہ سڑکیں جوآگے جا کر موٹروے سے جا ملتی ہیں دل باغ باغ کر گئیں قارئین سڑکوں کا جال ہائی ویز موٹر ویز کا مواصلاتی نظام کسی بھی ملک کی ترقی کا ضامن اور پہچان ہو اکرتا ہے۔ ہم نے سعودیہ کی طویل ترین کشادہ سڑکوں ہائی ویز اور موٹر ویز کے خوبصورت جال کو مملکت کی صنعتی ترقی اور تجارتی فروغ کا خود مشاہدہ کیا اب سعودی ارباب و اختیار نے جدہ سے مکہ ، مدینہ اور دمام کے لئے طویل ترین پٹڑیوں کا جال بچھا کر جدید اور تیز ترین ٹرینیں چلا کر ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا ہے۔ اپنے پاکستان میں ایسے بننے والے اور بنے ہوئے منصوبے یقینا ہماری آنے والی نسلوں کے لئے ہماری تجارت اور صنعت و حرفت کے لئے اہم رول ادا کرینگے۔

یہ ہمارے قومی دولت میں ہمارے وطن کی شان و آن ہیں۔ کوئی بھی حکومت بنائے حکمران بنائے ہمارے لئے فخر کا باعث ہونے چاہیں۔ ان میں مزید توسیع و ترقی کا عمل جاری و ساری رہنا چاہیے۔ بات ہو رہی تھی نئے بے نظیر ائیر پورٹ کی یقینا ایسے قومی منصوبے اور ادارے گنجان آباد شہروں سے دور ہی ہونے چاہیں۔ تاکہ شہر وسیع ہوتے جائیں اور نئے شہر آباد ہوں مگر عوام کی سہولت اور رسائی کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ورنہ شہروں سے دور ایسے ادارے نعمت کے بجائے زحمت کا باعث بن کر رہ جاتے ہیں ہمارے اس نئے دور دراز بننے والے ائیر پورٹ تک عام آدمی کے لئے جانے اور اانے کی کوئی سہولت میسر نہیں ۔ کوئی ایسی عوامی ٹرانسپورٹ نہیں چلائی گئی۔ جو کہ راولپنڈی کے بڑے اڈوں سے ائیر پورٹ تک اانے لے جانے کے لئے عوام کو میسر ہو سوائے بکنگ کے جو کہ ایک مہنگا سودا ہے۔ خصوصا ریاست آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں گلگت بلتستان کے عوام کے لئے بڑی مشکلات کا باعث بن چکا ہے۔ اس ائیر پورٹ پر آنا جانا بڑا مہنگا سودا بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ آزاد ریاست کے پندرہ سے بیس لاکھ محنت کش بیرون ممالک خصوصا عرب ریاستوں میں زیادہ تر مزدور طبقہ ملک کو قیمتی زر مبادلہ کما کر دے رہا ہے۔ وہ اس ائیر پورٹ پر آنے جانے کے لئے جبکہ انکے اہل خانہ بھی ساتھ ہوں اس چھ سے دس ہزار روپے تک گاڑیاں بک کروا کر جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کے لئے راولپنڈی شہر سے اس دور دراز ائیر پورٹ پر پہنچنا وہ بھی ٹیکسیوں اور بکنگ کی گاڑیوں پر بڑا مشکل بن چکا ہے حکومت پنجاب اور متعلقہ تمام ارباب ختیار سے اپیل ہے کہ وہ آزاد ریاست اور دور دراز علاقوں سے راولپنڈی شہر کے تمام اڈوں صدر پیر ودھائی فیض آباد اور دیگر اڈوں شاہراہوں ائیر پورٹ کے لئے پبلک ٹرانسپورٹ بسیں چلائے جو ہمہ وقت مسافرین اور ان کے استقبال کے لئے آنے جانے والوں کے لئے ائیر پورٹ پر پہنچنے کے لئے سستی سفری سہولت مہیا کرنے کے لئے فوری اقدامات کریں خصوصا میٹرو بسوں کا دائرہ کار بھی ائیر پورٹ تک بڑھا یا جائے اور مستقبل میں ریل کی بھی سہولت بہم پہنچائی جائے ورنہ یہ جدید ترین خوبصورت دور دراز بننے والا بے نظیر ائیر پورٹ عوام کے لئے نعمت کے بجائے زحمت بن کر رہ جائے گا ۔

امراء اور ذاتی گاڑیوں کے حامل لوگوں کے لئے تو یہ سیر سپاٹے اور لانگ ڈرائیو کے مزے لوٹنے کی مانند ہے۔ مگر غریب ملکی اور غیر ملکی مزدوروں کے لئے یہ مشکل ترین مہنگا سفر بنتا جا رہا ہے۔ امید ہے کہ ارباب اختیار فوراً اس مشکل کو آسان بنانے کے اقدامات کرے گی ۔ اس لئے کہ اچھے حکمران اپنے عوام کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں نہ کہ ان کے گلے کا ٹنے پہ لگ جائیں۔

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہربان ہو گا تم پہ عرش بریں پر

Haji Zahid Hussain Khan

Haji Zahid Hussain Khan

تحریر : حاجی زاہد حسین خان
ممبر پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ پاکستان