آخر کار حکومت نے تحفظ ِ پاکستان بل قومی اسمبلی سے منظور کروا ہی لیا آج صدرِ پاکستان کے دستخط ہونے کی دیرہے یہ دو سال کیلئے آئین کا حصہ بن جائے گا کچھ لوگ اسے کالا قانون بھی قرار دے رہے ہیں کیونکہ سکیورٹی اداروں کو شہریوں کی جاسوسی، بغیر وارنٹ گرفتاری اور تلاشی کا اختیار مل جائے گا زیر ِ حراست کسی بھی شخص کو دو ماہ تک عدالت میں پیش کئے بغیر گرفتار رکھا جا سکتا ہے اس مقصد کیلئے حراستی مراکز بھی قائم کئے جائیں گے پندرھویں گریڈ کے افسرکو گولی چلانے کی اجازت بھی دیدی گئی ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں پہلے ہی اختیارات سے تجاوز کرنا معمول بن چکاہے کئی سالوں سے سینکڑوں لاپتہ شہری معمہ بنے ہوئے ہیں پاکستان کی عدالتیں انہیں پیش کرنے کی اب تلک د ہائی دے رہی ہیں اور ان کے لواحقین آئے روز مظاہرے کرتے رہتے ہیںپولیس کے نجی عقوبت خانوںکی خبریں اکثر منظر ِ عام پر آتی رہتی ہیں ان حالات میںتحفظ ِ پاکستان بل انتہائی ”خوفناک” ہے اس سے عوام کے بنیادی حقوق صلب ہونے کااحتمال ہے۔
زیر ِ حراست کسی بھی شخص کو دو ماہ تک عدالت میں پیش کئے بغیر گرفتار رکھنا انسانی حقوق کے منافی ہے۔حکومت کا کہناہے کہ یہ سب کچھ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کیا جارہاہے ہو سکتاہے حکومت یہ سب نیک نیتی سے کررہی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کو درپیش چینلجز میں انتہا پسندی اوردہشت گردی سب سے سرِفہرست ہیں اب تک دہشت گردی کے نتیجہ میں کم و بیش پچاس ہزار افراد شہید، لاکھ سے زیادہ معذورہو چکے ہیں۔
کھربوں مالیت کی املاک تباہ اور قومی اداروں کو ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچ چکاہے۔ دہشت گردوںکی سر کوبی کیلئے پاک فوج نے ”اپریشن ضرب ِ عضب”شروع کررکھاہے جس کے بڑے مثبت نتائج شامنے آرہے ہیں جسے پوری قوم کی مکمل تائید حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے سیاستدانوں اوربیشتر عوامی حلقوں کو”تحفظ ِ پاکستان بل”پر بڑے تحفظات ہیں پاکستان میں تین درجن سے زائد مختلف ایجنسیاں کام کررہی ہیں،رینجر،پولیس، محافظ ،ایلیٹ فورس اور کئی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں پھر سکیورٹی اداروںکوشہریوںکی جاسوسی،بغیر وارنٹ گرفتاری اور تلاشی کا اختیار ملنا،زیر ِ حراست شخص کو دو ماہ تک عدالت میں پیش کئے بغیرگرفتاررکھنا ، حراستی مراکز کا قیام اور پندرھویں گریڈ کے افسرکو گولی چلانے کی اجازت دینا کچھ نرالی منطق نہیں۔
Terrorism
بھارتی حکومت نے کئی سال بیشتر” ناڈا” نامی ایسا ہی قانون نافد کرکے کشمیری حریت پسندوں اور بھارتی مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا تھا دنیا بھر کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس وقت اسے” ریاستی دہشت گردی ” اور کالا قانون قراردیا گیا تھا۔ پھر اب پاکستان میں تحفظ ِ پاکستان بل کا نفاذ سمجھ سے بالا ہے اگر قانونی طور اور آئینی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ بل پاکستان کے آئین کی روح کے منافی ہے1977ء کے آئین میں شہریوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ کسی پاکستانی کو بھی دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت قانون سازی پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مظلوم لوگوں کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے کسی کو دو ماہ تک کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنا اور خود کو بے گناہ ثابت نہ کرنے کا حق دینا انتہائی خطرناک ہے یہ اسلامی نقطہ ٔ نظر سے بھی جائز نہیں ۔کچھ لوگوںکو خدشہ ہے کہ حکومت تحفظ ِ پاکستان بل اپنے سیاسی مخالفین کو دبانے کیلئے استعمال کر سکتی ہے جو کسی بھی لحاظ سے اچھی بات نہ ہو گی اس بل سے سیاست اورجمہوریت کو بہت سے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ محض شک کی بنیادپر کسی کو دو ماہ تک حراست میں رکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ اورپھر کسی عدالت میں پیش بھی نہ کرنا انصاف کا خون ہے یہ تو جمہوریت کا چہرہ مسخ کرنے والی بات ہے۔
اس میں کوئی شک اوردوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کے دشمنوں،انسانیت کے قاتلوں اور امن کی کوششوںکو سبوتاژ کرنے والوںسے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن حکمرانوںکو کسی شہری کو اس کے بنیادی حق سے محروم کرنے کا کوئی حق ہے نہ جواز۔۔۔ تحفظ ِ پاکستان بل نافذہونے سے مذہبی اور سیاسی گروہوںکے خلاف جرائم بھی دائرہ میں آئیں گے جبکہ جوہری تنصیبات، ہوائی اڈوں،پارلیمنٹ، عدلیہ ،انتظامیہ، میڈیا ارکان کا اغواء ،قتل یا حملوں ۔عبادت گاہوں کو نقصان پہچانے پر اسی کے مطابق سزا ملے گی،سائبر جرائم بھی اسی زمرے میں آئیں گے تحفظ ِ پاکستان بل میں جرائم کی طویل فہرست شامل کی گئی ہے سیاسی حلقوں میں اس خدشہ کا بر ملا اظہارکیا جارہاہے کہ تحفظ ِ پاکستان بل سیاسی مخالفین کی زبان بند کرنے کیلئے استعمال ہو سکتاہے اور حکمرانوںکو ڈکٹیٹروں سے بھی زیادہ اختیارات مل جائیں گے جس سے نہ صرف اختیارات کا توازن خراب ہوگابلکہ غیر اعلانیہ مارشل لاء کا نفاذکی راہ ہموارہو جائے گی۔۔۔
یقینا سیاسی حلقوں کی اس بات میں وزن ہے اس لئے موجودہ حکمرانوں کیلئے اعتدال کا راستہ اختیارکرنادانشمندی ہے۔کہا جاتاہے پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتاہے بہتر تھا صدرِ پاکستان تحفظ ِ پاکستان بل پر دستخط سے پہلے ایک بارپھر غور کرلیتے۔۔ سوچنا سمجھنا ان کے منصب کا تقاضاہے لیکن اب پارلیمانی نظام ِ حکومت میں صدر کا عہدہ محض نمائشی ہے اس لئے وہی حتمی ہوگا جو وزیر ِ اعظم یا ان کی جماعت چاہے گی اگر ملکی حالات دیکھیں تو ہر پاکستانی کی خواہش کہ دہشت گردوںکو سخت ترین سزائیں دے کر انہیں عبرت کا نشان بنادیا جائے لیکن اس بل جن تحفظات کااظہارکیا جارہاہے وہ بھی بے معنی نہیں ہیں اس لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے اللہ کرے تحفظ ِ پاکستان بل کوسیاسی انتقام کیلئے استعمال نہ کیا جائے۔