پاکستان کے ایک اور محافظ مطیع الرحمٰان نظامی کو سزائے موت

Motiur Rahman Nizami

Motiur Rahman Nizami

تحریر : میر افسر امان
بنگلہ دیش دیش کی حکمران حسینہ واجد نے اپنے آقا بھارت کے کہنے پر ایک اور پاکستان اور دو قومی نظریہ کے محافظ، امیر جماعت اسلامی ٧٣ سالہ جناب مطیع الر حمان نظامی کو موت کی سزا بر قرار رکھی۔ اگر ان کو وحشی حسینہ واجد کے نام نہادٹریبونل کے فیصلے کے مطابق تختہ دار پر چھڑا دیتا ہے تو یہ پانچویں شہید ہونگے۔ سابقہ مشرقی پاکستان کو ہماری اپنی غلطیوں اور ہمارے ازلی دشمن بھارت کی فریب کاریوں کی وجہ سے علیحدہ ہونا پڑا تھا۔ جب مجیب الرحمان نے اپنی چھ نکات پیش کئے تھے تو دراصل یہ متحدہ پاکستان سے علیحدگی کی شروہات تھیں جس کے تانے بانے اگر تلہ میں بنے گئے تھے۔یہ وہ ہی بیانیہ تھا کہ پاکستان کو توڑ کر بھارت ماتا میں شامل کرنا ہے جس کا نام اکھنڈ بھارت ہے۔

جسے بھارت کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا ہوا ہے۔ بھارت کا بچہ بچہ یہ جانتاہے کہ بھارت کی گائو ماتا کی ایک ٹانگ توڑ دی گئی تھی(پاکستان کا بننا) جسے واپس ماتا کے جسم کے ساتھ جوڑنا ہے۔ اس کا اظہار بھارت کے دہشت گرد وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیش میں پاکستان توڑنے کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں کہا تھا کہ پاکستان کو بھارت نے مکتی باہنی بنا کر اور بھارتی فوجیں سابقہ مشرقی پاکستان میں داخل کر کے توڑا تھا۔ اپنے پرانے پروگرام کے تحت باقی ماندہ پاکستان کو توڑنے کے منصوبوں پر عمل پیرا ہے۔کل بھوشن یادیو کی پاکستان میں گرفتاری اس کا بین ثبوت ہے۔ اس سے قبل افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت پاکستان نے اقوام متحدہ اور آزاد دنیا کے سامنے پیش کر چکی ہے۔صاحبو! بنگلہ دیش بننے کے بعد مرحوم ذوالفقار علی بھٹو نے ١٩٧٤ء میں اِسے ایک معاہدے کے تحت منظور کیا تھا اور لاہور کی اسلامی سربرای کانفرنس میں بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان نے شرکت کی تھی۔

Agreement

Agreement

یہ معاہدہ پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی اور بنگلہ دیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان کے درمیا ن ہوا تھا۔ اس معاہدے میں طے پایا گیا تھا کہ کوئی بھی فریق ایک دوسرے کے خلاف سابقہ مشرقی پاکستان کی لڑائی کے متعلق کوئی بھی کاروائی نہیں کرے گا۔ اس کے بعد خیر سگالی کے طور پر اور دو برادر مسلمان ملکوں میں بھائی چارے کے فروغ کی نیت سے پاکستان نے بنگلہ دیش کے ایک فرد جو پاکستان کا جنگی طیارہ اغوا کرنے میں ملوث تھا، کی باقیات بنگلہ دیش کے حوالے کر دی تھیں۔پھرپاکستان کے ڈکٹیٹر مشرف نے بنگلہ دیش کے سرکاری دورے کے درمیان پاکستان کی حکومت کی طرف سے بنگلہ دیش کی حکومت سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ یہ اقدامات اس لئے گئے تھے کی ماضی کی تلخیوں کو کسی نہ کسی طرح زائل کیا جائے اور دونوں برادر ملک ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ مگر جیسے کی پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ پاکستان کو بھارت نے کبھی بھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔

اس کے وجود کو ختم کرنے کی کوئی بھی کسر نہیں چھوڑی اور چھوڑنے کے لیے تیا ر بھی نہیں ہے۔جماعت اسلامی نے پاکستان کے بچانے کے لیے سابقہ مشرقی پاکستان میں اپنی فوج کا ساتھ دیا تھا۔ گو کہ معاہدے کے تحت سب کچھ بھو ل جانے اور نئے عزم سے سفر جاری کرنے کی بات ہوئی تھی مگر بھات کو دو مسلمان ملکوں کی دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ بھارت نے حسینہ واجد کو اس معاہدے کی پروا نہ کرنے کا سبق پڑھایا اور حسینہ واجد نے ایک نام نہاد جنگی جرائم کاٹریبیونل قائم کیا اور پاکستان کا ساتھ دینے والوں کے خلاف مقدمات قائم کیے ان کو ایک ایک کر کے سزا سنائی گئی۔ اس سے قبل اس جرم میں چار شہید کیے جا چکے ہیں اور اب پانچویں کی سزا کو برقرر رکھا گیا ہے اب قانون کے مطابق صرف بنگلہ دیش کے صدر ان کی سزا موت کو معاف کر سکتا ہے۔ اور کسی بھی وقت امیر جماعت اسلامی جناب مطیع اکرحمان نظامی کو تحتہ دار پر چڑھایا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ، آزاد دنیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس نام نہاد جنگی ٹربیونل پر پر احتراض کئے تھے۔ اس کی نامکمل کاروائی پر بھی حرف اُٹھایا گیاتھا۔

Fake Case

Fake Case

بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے جانب داری برتنے کی ٹربیونل کے جج سے گفتگو بھی دنیا کے سامنے آئی تھی مگر ان سارے ثبوت کو ایک طرف رکھ کر بھارت کے حکم پر ایک ایک کر کے دو قومی نظریہ کے حامی لوگوں کو جعلی مقدمات کے ذریعے ٹکانے لگانے پر حسینہ واجد عمل پیرا ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی فوج پر بھی مقامات چلانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ حسینہ واجد نے تو وہی کرناہے جو کر رہی ہے ۔ ہماری حکومت کیا کر رہی ہے۔کیا پہلی سزا پر ہمیں عالمی عدالت انصاف میں نہیں جانا چاہیے تھا؟ کیا ہمیں او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بنگلہ دیش پر دبائو نہیں ڈالنا چاہے تھا؟ پہلے تو ہماری حکومت نے کہا تھا کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ ہے۔ پھر کچھ محب وطن لوگوں کی طرف پریشر پر کچھ بیان دیا۔ ارے بھائی کیسے اندرونی معاملہ ہے کیا پاکستان کے ساتھ بنگلہ دیش کا سب کچھ بھول جانے کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔اصل میں ہماری حکومت کو پاکستان کے دو نظریہ کا کچھ بھی احساس نہیں۔ حالا نکہ پاکستان کی دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا۔اِسے تو بھارت کے ساتھ تجارت کرنے کی کھپت نے سب کچھ بھلا دیا ہے۔ وہ بھارت سے مزاکرات اور امریکی ایجنڈے پر چلنے پر ہی مصروف عمل ہے۔

چاہے بھارت پاکستان کو توڑنے کے عمل کو چھوڑنے پر تیار نہ ہو۔ جو ہو چکا وہ ہو چکا اب ہماری حکومت کو یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں فوراً اُٹھانا چاہے۔ اس کے لیے اوآئی سی کا اجلاس بلانا چاہے۔ جب تک بنگلہ دیش کی طرف سے سزائوں کو بند کرنے کی یقین دیانی نہیں کرائی جاتی بھارت سے مزاکرات بند کر دینے چاہییں۔ بھارت ہی بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف ایسی حرکتیں کر نے پر ہدایات دیتا رہتا ہے۔امیر جاعت اسلامی پاکستان جناب سراج الحق نے اقوام متحدہ اور او آئی سی سے سزائے موت رکوانے کی درخواست کی ہے۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں کے عدالتی قتل اور دی جانے والی سزائوں کے خلاف کراچی میں سراج الحق کی زیر قیادت ٨ مئی کو احتجاجی مظاہرے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے بھی احتجاج اور ہڑتال کا اعلان کیا ہوا ہے۔اے کاش! ہمارے حکمران قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کو اگھرزندہ رکھتے۔ اندرا گاندھی کے اس تمسخرانہ بیان ”کہ میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے”۔ مسلمانوں سے ایک ہزار حکمرانی کا بدلہ لیا ہے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ ایٹمی پاکستان کے حکمرانوں بھارت کے ساتھ معزرتانہ رویہ چھوڑ دو اور جارحانہ رویہ رکھو۔ یاد رکھو بھارت تمھارا ازلی دشمن ہے اس سے دشمن والا رویہ ہی رکھو ورنہ باقی ماندہ پاکستان سے خدا نہ خاستہ ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان
کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان