بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ کشمیر میں طالبان یا پھر مبینہ پاکستانی عسکریت پسندوں کے آنے سے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ فوج کے مطابق اس برس پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی بھی نہیں کی گئی ہے۔
افغانستان میں طالبان کی ابھرتی طاقت کے بارے میں بات کرتے ہوئے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے بھارتی فوجی سربراہ نے کہا کہ اس کے لیے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور بھارتی فوج ہر ممکنہ صورت حال کے لیے تیار ہے۔ واضح رہے کہ حال ہی میں بھارت حکومت نے اس پس منظر میں اپنی فوج کو طالبان طرز کی تربیت دینے کا اعلان کیا تھا۔
پیر کی شام کو سرینگر میں اسی موضوع پر صحافیوں سے بات چیت کے دوران خطے کے فوجی سربراہ لیفٹنٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے کہا کہ پولیس کی رپورٹ کے مطابق وادی کشمیر میں اس وقت ساٹھ سے ستر کے درمیان بیرونی عسکریت پسند سرگرم ہیں تاہم جو بھی ہتھیار اٹھائے گا اس کے ساتھ فوج نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی مخالفت نہیں ہوئی بھارتی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ کشمیر میں پاکستان کے ساتھ جو اس برس فروری میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا وہ پوری طرح سے برقرار ہے۔ اس حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ڈی پی پانڈے نے کہا، ’’کھل کر بات کریں تو سرحد پار سے کسی طرح کی اشتعال انگیزی نہیں ہوئی ہے۔ ہم جنگ بندی کی خلاف ورزی کے لیے پوری طرح سے تیار بھی ہیں۔ ہم اس کا مناسب جواب دینے کے لیے بھی تیار ہیں۔‘‘
بھارت اور پاکستان کے درمیان فروری میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا اور میڈیا میں اس طرح کی باتیں ہوتی رہی ہیں کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد شاید یہ جنگ بندی برقرار نہ رہے اور کشمیر میں، ’’دراندازی کی کوششیں بڑھ جائیں۔‘‘
تاہم خطے میں بھارتی فوجی سربراہ نے اس حوالے سے ایک اور سوال کے جواب میں کہا، ’’اس برس اب تک جنگ بندی کے خلاف کا کوئی واقعہ، جہاں تک وادی کشمیر کا تعلق ہے، نہیں پیش آیا ہے۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گيا کہ کشمیر پر طالبان کا آخر کیا اثر پڑ سکتا تو ان کا کہنا تھا، ’’آپ فکر مند کیوں ہیں؟ آپ محفوظ ہیں اور آپ کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی بھی ہتھیار اٹھاتا ہے تو پھر اسے اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’میں اس سوال کو طالبان، غیر ملکی دہشت گرد یا پھر مقامی عسکریت پسندوں کی نظر سے نہیں دیکھتا ہوں۔ ہمارے لیے اس طرح کے معیار اور مقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ کوئی بھی شخص جو ہتھیار اٹھاتا ہے تو اسے کسی بھی طرح سے ختم کیا جائے گا۔ اسے مار کر یا پھر پکڑ کر، اور اگر وہ ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کرتا ہے تو ہم اسے بھی تسلیم کریں گے۔‘‘
جب ان سے وادی کشمیر میں بیرونی عسکریت پسندوں کے بارے میں پو چھا گيا تو ان کا کہنا تھا کہ پولیس کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد ساٹھ سے ستر کے درمیان ہوگی۔ ’’بنیادی طور پر ان کا تعلق پاکستان سے ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے شدت پسندوں کی حکمت عملی یہ ہے، ’’وہ کوئی دہشت گردانہ حملہ کرنے کے بجائے مقامی نوجوانوں کو ایسی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے راغب کر سکیں۔ انہیں اسلحہ فراہم کر سکیں تاکہ وہ تصادم میں مارے جائیں۔ اس سے انہیں ایک طرح سے فائدہ ہوتا ہے جب ہمارے ملک، کشمیر کا ایک نوجوان لڑکا مارا جاتا ہے تو اس کا خاندان ہم سے ناراض ہو جاتا ہے۔‘‘
عسکریت پسندوں کی در اندازی میں کمی بھارتی فوجی سربراہ نے تاہم یہ بات تسلیم کی کہ اس برس بہت کم در اندازی ہوئی ہے اور اس برس ایسی صرف دو ہی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کارروائی جولائی کے مہینے میں ہوئی تھی جبکہ دوسری اس ہفتے اڑی سیکٹر میں کی گئی۔ ’’ہم نے گزشتہ تقریبا 30 گھنٹوں سے اڑی میں آپریشن شروع کر رکھا ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ وہ اندر آ سکے یا نہیں۔‘‘
بھارتی فوج کے مطابق اڑی سیکٹر میں در اندازی کی کوشش گزشتہ سنیچر کی رات کو کی گئی اور اس دوران فائرنگ میں ایک فوجی زخمی بھی ہوا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ابھی یہ حتمی طور پر واضح نہیں ہے کہ وہ اس میں کامیاب ہو پائے یا نہیں اسی لیے سرچ آپریشن جاری ہے اور اس کے لیے پورے علاقے میں فون اور انٹر نیٹ سروسز کو بند کر دیا گيا ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں بھارتی فوج کے سربراہ ڈی پی پانڈے کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی در اندازی کی کوششیں ہوئی ہیں تاہم وہ ناکامیاب رہیں اور ماضی کے بر خلاف پاکستان نے بھی جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کر کے ان کی مدد نہیں کی۔
بھارتی قیادت کو اس بات کی پریشانی ہے کہ طالبان کے زیر قیادت افغانستان کہیں کشمیری عسکریت پسندوں کا گڑھ نہ بن جائے۔ مودی حکومت طالبان کو پاکستان کی ”پراکسی‘‘ کہہ چکی ہے جبکہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین نے بھی اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا تھا، ’’عنقریب بھارت کو بھی کشمیری جنگجوؤں کے ہاتھوں شکست اٹھانی پڑے گی۔‘‘
بھارت کے ایک معروف دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی کا کہنا ہے کہ ’’طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کی جیو پولیٹیکل اہمیت بڑھ گئی ہے اور یوں کشمیر کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن مزید مستحکم ہو جائے گی۔‘‘
بھارتی فوج نے اسی پس منظر میں انسداد دہشت گردی پر مامور بھارتی فورسز کے لیے ایک نیا ٹریننگ ماڈیول تیار کرنے کی ہدایت دی ہے۔ مرکزی سکیورٹی ادارے نے انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعینات سرحدی فورسز اور پولیس یونٹوں سے کہا ہے کہ وہ افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد کے حالات کو دیکھتے ہوئے کسی ممکنہ دہشت گردانہ کارروائی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اہلکاروں کو تیار کریں اور اس کے لیے ایک نیا ٹریننگ ماڈیول نافذ کریں۔