پاکستان تحریکِ انصاف کے دھرنے کی دھول ابھی فرش نشیں ہی نہیں ہوئی کہ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ایک اور دھرنے کی پکار فضائے پاک میں گونج رہی ہے۔سوچتا ہوں ، ہم کتنے بد نصیب لوگ ہیں کہ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے مالا مال ارضِ پاک ہمارے اپنوں ہی کے بد اندیشی کی وجہ سے روبہ زوال ہے،جوں ہی ملک آگے کی طرف ایک قدم بڑھاتا ہے تو اسے پھر دو قدم پیچھے کی طرف کھینچ لیا جاتا ہے۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے،آپ کو ایسی ہی کہانی ملے گی جو اس وقت ملک کو پھر درپیش ہے۔
آج بھی غیر شفاف انتخابات کی کہانی، مہنگائی، افراطِ زر اور جمہوریت کو خطرہ والی باتیں ہو رہی ہیں اور گزرے ہوئے کل بھی یہی رونا رویا جا رہا تھا۔ایک سیاسی جماعت دوسری کے سامنے اور دوسری تیسرے کے سامنے کھڑی کرکے پنجہ آزمائی کا تماشہ کل بھی جاری تھا اور آج بھی وہی کچھ ہورہاہے۔کبھی نظامِ مصطفےۖ ‘ کبھی اسلامی نظام کے نفاذ، کبھی روشن خیالی کا چرچا تو کبھی ختمِ نبوت کے تحفظ کی تحریکیں، وہی بربا دترین معیشت کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنا، زوال و انحطاط کی ذمہ داری کسی اور سر ڈالنا،سیاستدانوں کا میڈیا ٹرائل، الیکشن سے پہلے احتساب کا ڈھونگ اور پھر نامکمل احتساب، غرض 1948 سے لے آج تک ایک سی کہانی ،ایک سا کردار، کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔گویا پاکستانی قوم ایک گول چکر میں گھوم رہی ہے جبکہ ارتقاء اور خوشحالی گھول چکر سے نکلنے کا نام ہے۔
سوچنے کا مقام ہے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟ کیا صرف صرف لیڈر شِپ اس کا ذمہ دار ہے، نہیں، ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے ، ذرا اس پر بھی نظر دوڑائیے نا ، جی ہاں ، جو میں نے دیکھا ہے آپ کو بھی بتا دوں ! دودھ میں پانی، شہد میں شیرہ، سرخ مرچ میں اینٹوں کا بھورا، جوس میں کیمیکل اور جعلی فلیور، پھلوں میں میٹھے انجکشن، گھی میں کیمیکل اور مرغیوں کی انتڑیاں، چائے کے پتی میں چنے کے چھلکے، شوارمے میں بلی اور کتے کا گوشت، چنے کے آٹے میں لکڑی کا بھو سہ، بچوں کے کھانے کے چیزوں میں زہر آلود میٹریل، بکرے کے گوشت میں انجکشن کے ذریعے پانی مِِلا کر وزن زیادہ کرنا ، ناپ تول میں کمی، شادی کے کھانوں میں مرے ہوئے مرغیوں کا گوشت،منرل واٹر میں نلکے کا پانی،جعلی صابن ، جعلی شیمپو جعلی کریم ،مگر سب اصلی ٹیگ کے ساتھ، دو نمبر دوائیاں، دو نمبر ڈاکٹر، ملازمت میں نا جائز سفارش اور رشوت، امتحانوں میں نقل، بجلی میں ہیرہ پھیری، موبائل میں فحش تصاویر اور فلمیں، ماں باپ کا احترام ختم، پڑوسیوں سے بد سلوکی، پٹرول و ڈیزل میں ملاوٹ، دوستی میں خود غرضی ، مرد اورعورت کا اخطلاط، بغیر عمل کا علم، جھوٹ نیکی سمجھ کر بو لنا، قتل آسان، روزی میں حرام کی آمیزش، محبت میں دھوکہ، حاجیوں، نمازیوں، تبلیغیوں اور پیشانی پر دھبوں کے باوجود ایمانداری میں ہمارا 135واں نمبر۔کیا پاکستانی عوام نے کبھی سوچا ہے کہ ہم خود کیا ہیں ؟ جیسے عوام ویسے حکمران۔۔۔ جب تک ہم نہیں بدلیں گے، ملک کیسے بدلے گا ؟ کبھی کبھار گماں ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ماضی سے کچھ سیکھ پائیں گی، لیکن نہیں ،وہ اب بھی اسی گول چکر میں رواں دواں ہیں۔
سیاسی جماعتیں بدلیں، نہ عوام بدلی۔گویا پورے کا پورا معاشرہ بیمار ہے اور جب پورا معاشرہ بیمار ہو جائے تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔پچھلے 72سالوں میں پاکستانی عوام نے ہر نئے آنے والے حکمران سے تبدیلی کی توقع رکھی مگر کوئی بھی حکمران تبدیلی نہ لا سکا، عمران خان نے عوام کے دلوں میں امیدوں کے جو چراغ جلائے تھے وہ بھی بجھتے چلے جا رہے ہیں۔امیدیں جس قدر زیادہ ہوں، دم توڑنے پر ردِ عمل بڑا شدید ہوتا ہے۔مگر کاش کو ئی سوچے تو سہی۔مولانا فضل الرحمن آزادی مارچ کرنے جا رہا ہے، زرداری اور نواز شریف ان کے ہم نوا ہیں مگر انجام ِ گلستاں کیا ہو گا ؟ وہی گول چکر ، وہی ہیر پھیر، ایسی مشکل ترین حالات میں اگر منزل سامنے نظر آرہی ہو تو کچھ امید بندھ جاتی ہے مگر افسوس صد افسوس کہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے۔حکمراں بدل رہے ہیں نہ عوام، دماغ سائیں سائیں کر رہا ہے،دیکھا تھا ،جس کا خواب، یہ وہ سحر تو نہیں۔۔
سوچتا ہوں، ” اے ارضِ وطن ! تجھے کس کی نظر لگی ہے ؟ کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار نعمتوں سے مالا مال ہو نے کے باوجود غربت کے گہری کھائی سے باہرنہیں نکل رہا ہے۔ میری حکمرانوں، سیاستدانوں اور عوام سے اپیل ہے کہ خدا را ! بدل دیجئے اپنے آپ کو ۔کچھ نیا لے آئیے جس میں جمہوریت کے نام پر آمریت نہ ہو،جس میں مذہب کے نام پر فرقہ واریت نہ ہو، جس میں مذہب کے پسِ پردہ سیاست نہ ہو ، اسلام کے نام پر جنو نیت نہ ہو،اور عوام کے نام پر استحصال نہ ہو۔