تحریر : لقمان اسد پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے 14اگست 2014کے دن سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف لانگ مارچ اور دھرنے کی کال دیکر اپنے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کردیا یہ مقررہ دن ابھی کچھ دور تھا مگر ن لیگی حکومت پر اس دن کے حوالے سے بے حدخوف طاری تھا اسی خوف کے سبب پنجاب حکومت کے دل میں ایک رات اچانک لاہور ہائیکورٹ کے فیصلہ کی پاسداری اور عملداری کا احساس اُمڈآیا اور لاہور میں سیکورٹی کے پیش نظر مختلف مقامات پر لگائے گئے بیریئر ہٹانے کی مہم شروع کردی گئی
اس مہم کا آغازپنجاب پولیس کے آفیسران اور پنجاب پولیس کے شیرجوانوں کی زیرنگرانی ہوا لاہور کے علاقہ ماڈل ٹائون میں ڈاکٹر طاہر القادری کی تنظیم منہاج القرآن کا مرکزی ہیڈکوارٹر بھی ہے اور علامہ صاحب کی رہائش گاہ بھی ان جگہوں پر یہ بیریئر سیکورٹی کے پیش نظر لگائے گئے تھے یہاں بھی پولیس کے شیرجوان پہنچ گئے لیکن یہا پر اس کاروائی کا آغاز انوکھے انداز میں دیکھنے کو ملا پولیس کی قیادت ”گلو بٹ” کررہا تھا
Gullu Butt
گلو بٹ ہاتھ میں ڈنڈا لہراتے ہوئے اپنی بڑی بڑی مونچھوں کوتائو دیے جارہا تھااور پولیس فورس کے آگے آگے سینہ تان کر اس انداز اکڑ،اکڑ کرچل رہا تھا جیسے وہ دشمن فوج یا باغیوں کے قبضہ سے لاہور کے ”شاہی قلعہ”کو واگذار کرائے جانے کی جدوجہد کا اہم ترین فریضہ سرانجام دینے کی غرض سے آج ماڈل ٹائون آپہنچا ہے منہاج القرآن کے کارکنان بھی پولیس اور گلو بٹ کے اس نرالے انداز کو دیکھ کر حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے ”گلو بٹ”نے اپنے ڈنڈے سے وہاں پر کھڑی گاڑیوں کے شیشے توڑنا شروع کردیے اور یہی سے یہ معاملہ بگڑنے کا سلسلہ شروع ہوا
منہاج القرآن کے کارکن اس بے تُکے انداز پر سراپااحتجاج ہوئے اسی اثناء میں ماڈل ٹائون کی فضا گولیوں کی بوچھاڑ اور تڑتڑاہٹ سے سوگوار ہوگئی جس کے نتیجہ میں منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے 11کارکنان اس سانحہ ماڈل ٹائون میں زندگی کی بازی ہار گئے۔