تحریر : محمد اکرم اعوان صحافت اور سیاست کا چولی دامن ساتھ ہے۔ سلگتے عوامی مسائل کی نشاندی کا نام صحافت ہے تو عوامی مسائل کے حل تک بطریق احسن رسائی کا نام سیاست ہے۔ ناانصافی، حق تلفی،ظلم و جبر کے خلاف آواز اُٹھانااورپرامن احتجاج کرناہرشہری اورہر سیاسی جماعت کا حق ہے تو حقائق سامنے لانااوراختلاف رائے رکھنا بھی ہرشہری اورصحافی کا حق ہے ۔ ہر صحافی سب سے پہلے صرف اور صرف صحافی ہے،اس کے بعداس کا پلیٹ فارم آتاہے، آج ایک صحافی ایک مقام یا ادارہ کے ذریعہء حقائق عوام کے سامنے لا رہا ہے ، تو ممکن ہے کل کسی دوسرے ادارہ میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرے ۔ یہ سب پاکستانی ہیںآ پ ان میں سے کسی پر بھی ملک دُشمنی کا الزام عائد نہیں کرسکتے ۔ یہ سب اتنے ہی سچے پاکستانی اورمحب ِ وطن ہیں جتنے دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے۔ جنگ کے ذریعہ ملکی سلامتی کو خطرات در پیش ہوں، ملک دُشمن عناصر کی تخریب کاری کا اندیشہ ہو یا کوئی بھی قدرتی آفت ہو، یہ صحافی ہی ہیں جو اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنی پیشہ وارانہ خدمات انجام دیتے ہیں اور پاکستان کے عوام کو لمحہ بہ لمحہ حالات سے آگاہ کرتے ہیں۔
مگراب تو صورت حال اس قدرخطرناک ہو چکی ہے کہ تشدد ،بدتمیزی اورسیاسی ورکروں کے ہاتھوں صحافیوں کی ذلت و رسوائی جیسے واقعات میں روزبروز اضافہ ہوتا جارہاہے۔2014کی رپورٹ کے مطابق پیشہ وارانہ امور سرانجام دینے کے دوران صحافیوں پر تشددمیں پاکستان دُنیا بھر میں تیسرے نمبر ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف احتجاج کا حق اگست 2014سے استعمال کررہی ہے۔اس احتجاج کی ابتدا ہی میں تلخ واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے۔جس کی بناء پر مخالفین کی جانب سے تحریک انصاف پر سیاسی جماعت کے ساتھ پرتشدد جماعت کا لیبل بھی چسپاں کیا جانے لگا۔
تحریک انصاف کی قیادت نے اس بڑھتے خطرہ کو بھانپتے ہوئے الفاظ اور تقریروں کی حدتک تو اپنے کارکنوں سے پرامن رہنے کی استدعاکی ۔عوام اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچنے والے پرتشددواقعات کی مذمت کی گئی۔مگرعملاََ ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس سے بدمزگی اورتشدد جیسے واقعات وقوع پذیر ہی نہ ہو پائیں اور رہی سہی کسر شیخ رشید جیسے مقررین نے پوری کر دی۔صرف چار حلقوں میں دھاندلی کے متعلق تحقیقات کے مطالبہ سے شروع ہونے والا احتجاج بے شک حکومتی بے حسی اور لاپرواہی کے سبب ملک گیر احتجاج کی شکل اختیار کرگیا۔ تحریک انصاف کو احتجاج کے دائرہ کار بڑھانے کے ساتھ ساتھ کارکنوں کی تربیت میں بھی اضافہ کرتے ہوئے جماعت کو منظم کرنا چاہیے تھا،تا کہ نہ صرف تحریک انصاف کے کارکن جذبات میں آکر کسی ناخوشگوار کاواقع سبب نہ بنیں بلکہ ایسے موقع پر دیگر شر پسند عناصرکو بھی کسی شرارت کا موقع نہ مل سکے۔
Imran Khan
پاکستان تحریک انصاف کے لاہور میں 15 دسمبر کو احتجاج کے دوران زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا مریضوں کو ہسپتال پہنچانے کے لئے ایمبولینسوں میں موجود مریضوں کے لواحقین سار ادن راستے تلاش کرتے اور شاہراہ بند کرنے والوں کی منتیں کرتے رہے۔آخرکار راستہ نہ ملنے کی وجہ سے مریض دم توڑگئے۔اسے معمول کا واقعہ کہنا کسی طور پر دانشمندی نہیں بلکہ یہ سوچ تو انتہائی بے حسی کی عکاسی کرتی ہے ۔زندگی موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ،اگر انہیں احسن طریقہ سے راستہ مہیا کردیا جاتا توان کے لواحقین کویہ پچھتاوا تونہ رہتا کہ وہ بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکے۔ان جانوں کا کیا ہوگا جو قوم کوانصاف دلانے کے متلاشیوں کے سبب قربان ہوگئیں۔کیاان کے عزیز واقارب زندگی بھران لمحات کو بھول پائیں گے،جب ان کے لخت ِ جگر،ان کے پیارے ،اپنے ہی ملک میں بے بسی کے عالم میں موت کی نظر ہوگئے ۔ہرگزنہیں،ہسپتال بروقت نہ پہنچنے کے سبب مرنے والوں کے لواحقین،اپنے پیاروں کی اس بے بسی کے عالم کی موت، یہ د ن اور یہ احتجاج ، عمربھر نہیں بھلا پائیں گے۔
ایک عورت روتی ہوئی فوج کے سربراہ کے پاس پہنچتی ہے۔ اس عورت کو بتایا گیا کہ تمھارا بیٹا دُشمن فوج کے قبضہ میں ہے ہم اس قابل نہیں کہ مخالف فوج سے لڑائی کرسکیں اور تمھارے بیٹے کو واپس لا سکیں۔ یہ ایک ہی صورت میں ممکن ہے تم خود مخالف فوج کے سپہ سالار کے پاس جاؤ اور اُس کے سامنے اپنے بیٹے کی رہائی کی التجاکرو۔ وہ عورت کسی نہ کسی طرح مخالف فوج کے سربراہ تک پہنچ کراپنے بیٹے کی رہائی کی درخواست کرتی ہے۔ فوج کا سپہ سالار عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔کہاجاتا ہے کہ اس عورت کا بیٹا غلام بنا کر بیچ دیا گیا تھا، جسے سپہ سالار کے حکم پراُس کی رقم ادا کرکے واپس اُس کی ماں کے سپرد کردیا گیا۔جس کے نام سے آج بھی دُشمنان ا ِسلام لرزاں ہیں،یہ سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی تھااور اس کاعورت بیٹا دُشمن کی فوج کا سپاہی تھا۔ کہاں دُشمن کی عورت کی عزت و احترام اور کہاں آج اپنی ہی بیٹی کوذلیل اور رسوا کرنے کے مناظر پوری دُنیا دیکھ رہی ہے ۔ اِسلام میں بلاتفریق مذہب عورت کے ساتھ نرمی اوراخلاق کے ساتھ پیش آنے کی تعلیم دی گئی ہے۔مذہب اِسلام خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
پاکستان کے عوام پہلے ہی دہشت گردی میں ناحق مارے جانے،بے روزگاری ،غربت اور مہنگائی کے سبب نالاں اور تمام سیاسی راہنماؤں سے مایوس ہوچکے ہیں۔ تمام سیاستدانوں سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے عوام کی جان ومال ،عزت وآبرو کی حفاظت،امن وامان،روزگارکی فراہمی اوربنیادی ضروریات پوری کرنے کے بجائے ساری توجہ اپنے کاروبار اور بینک بیلنس بنانے پر مرکوز رکھی۔افسوس کہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی دیگر سیاسی جماعتوں کی طرح جمہوری سوچ اورمثبت طرز ِ فکروعمل اختیارکرنے کی بجائے نفرت اور تشدد ہی کوکامیابی کاذریعہء سمجھ لیا ہے۔اب عوام سب سے عاجز،تنگ اور کسی سے بھی بہتر ی کی اُمیدنہیں رکھتے۔ ایسا ملک جہاں اکثریت مسلمانوں کی ہو، جن کے دین میں عورت ذات کے متعلق احکامات کسی وضاحت کے محتاج نہ ہوں،وہاں عورت ذات کو اپنے فرائض کی انجام دہی کے دورا ن تضحیک آمیزاورنارواسلوک جیسے واقعات پیش آنا سب کے لئے انصاف اور برابری کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت”پاکستان تحریک انصاف” کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔گزشتہ دنوں میں تسلسل سے پیش آنے والے پرتشددواقعات میں پاکستان تحریک انصاف کا کوئی بھی ورکرشامل نہیں تو بھی عمران خان کواپنی جماعت کے ورکرز کی ابتدائی سطح پر تربیت کرنی ہوگی تاکہ آئیندہ کوئی ایساناخوشگوار واقع پیش آنے سے محفوظ رہا جاسکے جو پاکستان تحریک انصاف کی بدنامی کا سبب بنے۔ پاکستان تحریک انصاف سیاسی جماعت ہے ،اس کے قائدین کو پی ٹی آئی پر”پرتشدد جماعت” کا لیبل لگنے کے تاثر کوزائل کرنااوراس خطرناک روایت کا سدباب کرنا ہوگا۔