معروف بھارتی سیاست دان خشونت سنگھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اقبالؒ کا ایک ہی شعر قائد اعظمؒ کی سوانح حیات کا ترجمان ہے۔
نگاہ بلند، سخن دلنوار، جاں پر سوز یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
قائد اعظمؒ اقبال ؒ کے اس شعر کی تشریح اور تصویر تھے ورنہ نوابوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی جماعت مسلم لیگ کے لیے کسی طور ممکن نہ تھا کہ وہ لارڈ مونٹ بیٹن، پٹیل، گاندھی، نہرو، مولانا آزاد اور دیگر شاطر سیاستدانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے محض سات سال کی قلیل مدت میں پاکستان بنا لیتے۔
اک ذرہ مچل جائے تو طوفاں بن جائے اک موج اگر چاہے تو طغیاں بن جائے
مسلمانوں نے ہندوستان پر تقریباََِ ساڑھے سات سو سال حکومت کی ہے اور اس کے بعد سو برس انہیں اس سلطنت کے مختلف علاقے کھو دینے میں لگے یہاں تک کہ حکومت سمٹ کر شاہی قلعے تک محدود ہو گئی۔۱۸۵۷ کے بعد نوے برس تک انگریزوں نے حکومت کی جب ان کی رخصت کا وقت آیا تو کاروبار سلطنت کا مسلہ پچیدہ ہو چکا تھا۔ بیسویں صدی میں ہندوستان کے لیے طرز حکومت کا انتخاب ایک بالکل نیا اور اہم تاریخی مرحلہ تھا۔بادشاہت سے جمہوریت تک کے سفر کے لیے جو وقت درکار تھا وہ برِعظیم کو میسّر نہ آیا اور یہ برِعظیم انگریزوں کی غلامی سے دو چار ہوگیا۔ غلامی کے اس گھُپ اندھیرے سے نکالنے کی سعادت قائداعظم کے حصے میں آئی۔
برِعظیم کے مسلمانوں میں ملت کے وجود کا احساس اور اس کے اظہار کے لیے ایک ریاست کی اساس رکھنے کا اہم فریضہ قائداعظم کے سُپرد ہوا۔ قائداعظم کی مشکلات کااندازہ لگائیں تو اُن کی خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ جب قائداعظم نے تحریک پاکستان کی قیادت قبول کی تو اس وقت مخالف اسے دیوانگی اور ناممکنات میں شامل کرتے تھے اور جس نے ذرا رحم کھایا اس نے اسے شاعر کا خواب ٹھہرایا۔ مسلمانوں کی اجتماعی صورت حال یہ تھی کہ وہ نام کی جماعت تو رکھتے تھے مگر جمعیت بالکل منتشر تھی۔ برطانوی ہند کے مسلمان عام طور پر ایسی صوبائی قیادت کے زیرِ اثر تھے جو علاقائی وفاداریوں سے بلند نہ تھی۔ علما کانگریسی تھے اور مسلم لیگ کنگال تھی۔
معاشی طور پر مسلمان پسماندہ تھے اور تجارت یا صنعت کے کسی شعبے میں اُن کا اثر نہ تھا۔ تعلیم کے میدان میں بھی وہ بہت پیچھےتھے۔ زمینداری میں کچھ حصہ مسلمانوں کاضرور تھا مگر ایک سابق حکمران طبقے کی حیثیت سے اور دوسرا انگریز حکومت کی نو آباد زمینوں کی تقسیم کی بدولت۔ ان حالات میں قائداعظم مسلمانوں کی شیرازہ بندی کے لیے اُٹھے اور اُن میں بظاہر ہر اس بات کی کمی تھی جو اُن دنوں ایک مسلمان سیاست دان کے لیے ضروری سمجھی جاتی تھی کیونکہ آپ کئی سال تک لندن میں رہے تھے اور ہم وطنوں کے لیے ایک اجنبی سے زیادہ حیثیت نہ رکھتے تھے، آپ عالم دین بھی نہ تھے بلکہ بودوباش سے بالکل انگریز لگتے تھے، آپ کو عربی اور فارسی سے بھی کوئی تعلق نہ تھا حتےٰ کہ اردو بھی نہ آتی تھی اور آپ کی ذاتی زندگی میں بھی بڑی تنہائی تھی۔ بیگم آپ کی زندگی میں بہت دیر سے داخل ہوئیں اور بہت جلد نکل گئیں مگر ان تمام باتوں کے باوجود قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت کچھ اسطرح سے اُبھر کر سامنے آئی کہ منتشر اور مایوس لوگ متحد اور پُراُمید ہوگئے اور ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کرنے لگے جو بلاآخر قیام پاکستان کی صورت میں سب کے سامنے آیا۔وہ بات جو بظاہر سب کو ناممکن نظر آتی تھی ایک فرد واحد نے آنِ واحد میں ثابت کر دی۔ کامیابی جب اتنی بڑی ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔
کارلائل کہتا ہے کہ بڑا آدمی آسمان سے گرنے والی بجلی کی طرح ہوتا ہے جبکہ عام آدمی تو ایندھن ہوتا ہے جو اس بجلی کے انتظار میں رہتا ہےتاکہ اس کی بدولت وہ بھی آگ پکڑ لے۔ اس قول کی روشنی میں ہمیں اس حرارت کی وجہ سمجھ میں آتی ہے جو دلِ مسلم میں ۱۹۴۰ سے لیکر ۱۹۴۷ کے درمیان پیدا ہوئی تھی۔
قائدِ اعظم عمل،دیانت،خطابت اور خودداری کا وہ عزم تھے جسے یقینِ مُحکم کہتے ہیں۔ قائدِ اعظم کے اسلحے میں وہ ساری شمشیریں شامل تھیں جو جہاد زندگانی کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اُن کے توشہ میں وہ ساری خوبیاں بھی مُوجودتھیں جو میرِ کارواں کا رختِ سفر کہلاتی ہیں۔
ایک بڑے انسان کی عظمت کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ اس کی عظمت و برتری کا اعتراف اپنے اور بیگانے سبھی یکساں طور پر کریں۔
”جناح آف پا کستان”کے مصنف پروفیسر اسٹینلے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا قائدِ اعظم کے بارےمیں لکھتے ہیں۔
بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تاریخ کا دھارا بدل دیتے ہیں اور ایسے لوگ تو اور بھی کم ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں اور ایسا تو کوئی کوئی ہوتا ہے جو ایک نئی مملکت قائم کر دے۔ محمد علی جناح ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے بیک وقت تینوں کارنامے کر دکھائے۔
علامہ شبیر احمد عثمانی جوآل انڈیا مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کے رکن اور ممتاز عالمِ دین تھےجنہوں نے قائدِ اعظم کی نمازِ جنازہ بھی پڑھائی۔ وہ قائدِ اعظم کے متعلق فرماتے ہیں۔” شہنشاہ اورنگزیب کے بعد ہندوستان نے اتنا بڑا مسلمان لیڈر پیدا نہیں کیا جس کے غیر متزلزل ایمان اور اٹل ارادے نے دس کروڑ شکست خوردہ مسلمانوں کو کامرانیوں میں بدل دیا ہو”۔
علامہ اقبال شاعر مشرق، حکیم اُلامت اور پاکستان کے قومی شاعر نے ایک خط میں قائد کو لکھا ”برطانوی ہند میں اس وقت صرف آپ ہی ایسے لیڈر ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے کا حق پوری ملتِ اسلامہ کو حاصل ہے”۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا: قائدِ اعظم محمد علی جناح ہر مسئلے کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیتے تھے اور یہی ان کی کامیابی کا راز ہے۔ ماسٹر تارا سنگھ نے کہا: قائدِ اعظم نے مسلمانوں کو ہندوؤں کی غلامی سے نجات دلائی۔ اگر یہ شخص سکھوں میں پیدا ہوتا تو اس کی پوجا کی جاتی۔ سر ونسٹن چرچل نے کہا: مسٹر جناح اپنے ارادوں اور اپنی رائے میں بے حد سخت ہیں۔ ان کے رویے میں کوئی لوچ نہیں پایا جاتا۔ وہ مسلم قوم کے مخلص رہنما ہی نہیں سچے وکیل بھی ہیں۔
آج ہمیں مشکلات اور چیلنجزسے نپٹنے کے لئے بحثیت قوم سخت محنت کرنا ہوگی اور ایک سیسہ پلائی دیوار بننا ہوگا۔ ایس کے موجمدار اپنی کتاب (جناح اور گاندھی) میں لکھتے ہیں کہ قائد اعظمؒ شخصیت اور کردار کے حوالے سے ہمیشہ گاندھی پرحاوی رہے ۔گاندھی کے قول و فعل میں تضاد تھا اگر برطانوی حکومت اور وائسرائے ہندکی پشت پر کھڑے نہ ہوتے تو نہروسبھاش چندر بوس اتحادابتداء ہی میں گاندھی کو واپس افریقہ بھجوا دیتا۔ بر طانو ی حکومت اور وائسرائے نے نہرو سبھاش اتحاد تو توڑ دیا مگر قائد اعظمؒ جیسے عظیم شخص کے سامنے انگریز کی کوئی چال کا میاب نہ ہوئی۔
پاکستان بننے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں تو ہمیں کوئی ایسا قائد یا لیڈر نظر نہیں آتا جو اقبالؒ کے نظریے کا کسی حد تک ہی ترجمان ہو۔ ہر طرف افراتفری، نفسا نفسی ، خود غرضی، خود فریبی اور خوش فہمی کے دیوتاؤں کے بت سیاست، صحافت، دانشوری، اور دانائی کے لبادے اوڑھے کھڑے ہیں اور عوام ان کی پوجا میں عافیت سمجھتے ہیں ۔ ہم قائد اعظم ؒ اور اقبالؒ کا نظریہ بول کر زرداری اور نواز شریف کے نظریے پر یقین کر چکے ہیں اور تباہی کے دھانے پر کھڑے آخری جھٹکے کے منتظر ہیں۔ دانشوری اور دانائی قابل فروخت اشیاء میں شامل ہیں اور صحافت چانکیای اور میکا ولین نظریات کی تشہیر کانام ہے۔ صحافت، سیاست اور دانش کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا دوسرا نا ہے اور زمانہ حال کا سب سے بہترین اور منافع بخش کاروبار ہے-
آج ہمیں پھر اسی جذبے کو زندہ کرنا ہو گاجو جذبہ قیام پاکستان کے وقت ہمارے ہمارے آباؤ اجداد میں تھا جسکی کمی آج شدت سے محسوس ہورہی ہے اور جس کی وجہ سے پاکستان معرض وجود میں آیا تاکہ قائد اعظم محمد علی جناح کے خواب کی تکمیل ہوسکے اور پاکستان اقوام عالم میں اپنا لوہا منواسکے۔
بانی پاکستان کا ایک قول جو آج کل کے پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے ہماری ڈھارس بندھاتا ہے۔”ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیا ں دینا سیکھیں گے اتنی ہی زیادہ پاکیزہ ،خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھرئیں گے جیسے سونا آگ پر تپ کر کندن بن جاتا ہے “۔ اللہ ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے اور پاکستان کو صحیح معنوں میں پاکستان بنائے اور ہمیں پاکستان کا سفیر بن کر ہر جگہ اپنے مُلک کا نام روشن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔آخر پر ان اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا۔
آؤ کہیں سے اُجلے اُجلے موسم ڈھونڈ کے لائیں ہم آؤ کوئی ہنستا ہوا منظر آنکھوں میں تصویر کریں تاریکی کا کوئی لمحہ شہر میں داخل نہ ہو سکے لمحوں کے اوراق پہ اتنی روشنیاں تحریر کریں