میں اہل پاکستان کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کی جرات کررہا ہوں جو انھوں نے ‘قائد اعظم ‘کی آواز پرتعمیر پاکستان کے وقت پڑھا تھا: ‘پاکستان کا مطلب کیا،لا الہ الا اللّٰہ’اور لاالہ کا مطلب کیا؟اطاعت خداوندی،انسانی بھائی چارہ،دنیا میں امن و امان کے فروغ کی کوششیں ،اللہ کے بندوں کے لیے راحت رسانیاں کرنا،خداکی زمین پر مظالم سے پرہیز کر نا اور برائیوں،بدیوں،حرامکاریوں،دھوکے فریب سے پاک معاشرو ںکی تشکیل وغیرہ مگرافسوس!اہل پاکستان آج اس مقدس سبق کو بھول گئے اور ان ہزاروں شہیدوں پر مٹی ڈال دی جنھوں نے تعمیر پاکستان کی خاطر اپناگھر بار ،مال و دولت ،اعزا و اقارب ، عصمت و عفت ،جان اور آبرو تک قربان کر دی ۔آج پاکستا ن میں’لا الہ الا اللّٰہ ‘پر نہیںنفسانی خواہشات پر عمل ہو رہا ہے۔ آج وہاں من مانیوں اور عیش کو شیوں پر عمل ہورہاہے جن کی بد ولت پاکستان شکست و ریخت اور ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے۔
آج پاکستان کے لیے بے دریغ قربانیاں دینے والے اپنے آپ کو ٹھگا ہوامحسوسں کررہے ہیں اور انھیں لگ رہا ہے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا۔ میرا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ پاکستان عالمی برادری سے مقابلہ نہ کر ے یا وہاں جدید دنیا کے اصولوں پر عمل نہ کیا جائے، اسی طرح پاکستان گذشتہ صدیوں کے دور میں چلاجائے تاہم میں اتنا ضرورہے کہ ترقی پاکستان کا کام ان ہی لوگوں سے لیا جائے جن کے ابائو اجداد نے اس کی نیو رکھی تھی،یقین مانیے!آج پاکستان جس طرح کے مسائل اور خانہ جنگی کے حالات سے دوچار ہے ،اس کی تصویر یکسر بدل جائے گی اور وہ مضبوط و پائدار مملکت کی شکل میں دنیا کے نقشے پر ابھرے گا۔اس لیے کہ آج بھی پاکستان میں ایسے افراد موجود ہیں جو پاکستان کا مطلب ‘لا الہ الا اللّٰہ’ سمجھتے ہیں مگر بدقسمتی سے انھیں حاشیے پر رکھ دیا گیا ہے اور ترقی پاکستان کی کمان ایسے ہاتھوں میں دیدی گئی جنھیں ان خون آشام حالات اور ہوش ربا قیامتوں کا قطعی علم نہیں ہے جو ہندوستان میں ‘پاکستان’کا خواب دیکھنے والوں پر گذری تھیں،نہ انھیں ان آگ و خون کے دریائوں کی خبرہے جن میں سے گذرکر لاکھوں بانوئیں ،رابعائیں ،مسرتیں سرزمین پاک تک پہنچیں تھیں ۔بھلا ایسے لوگ کس طرح پاکستان کی رگوں میں حریت اور اسلامیت کی روح پھونک سکتے ہیں وہ تو وہی کریں گے جو آج ہو رہا ہے۔
India
مجھے نئی دہلی اور بھرتپور میں بیٹھ کر ان قیامتوں کا احساس ہے جو ہندوستان سے پاکستان جانے والے قافلوں پر گذری تھیں مگر اہل پاکستان کو اسلام آباد،کراچی ،لاہور اور پنڈی میں بھی ان کا احساس نہیں ،میں کسی کو الزام نہیں دے رہا ہوں ،وہاں کے حالات ،اقلیتوں پر ستم ریزیاں،خانہ جنگیا ں ، طبقاتی،لسانی اور نظریاتی تفریق،آئے دن شہروں اور بھرے پرے بازاروں ،عوامی مقامات اورچوراہوںپر بم دھماکوں کے سانحے ، سندھی ،پنجابی ،بلوچی اور پشتوکا اختلاف،پاکستانی قوم کے نو جوانوں کی بے راہ رویاں ،فرائض سے غفلتیں،عمائدین قوم کی آپسی رنجشیں اور مسلکی جھگڑ ے یہ سب چیخ چیخ کرکہہ رہے ہیں کہ پاکستانی قوم پاکستان کے لیے قربانی دینے والی روحوں کو بھول چکی ہے۔یہ کتنی المناک بات ہے کہ آج پاکستان کی آزادی کو 68سال ہوچکے ہیں مگر اب تک وہاں کی مائوں نے کوئی دوسرا ‘جناح’ اور ‘لیاقت علی’ نہیں جنا،جن لوگوں نے ان عظیم ہستیوں کے طرز پر چلنے کی کوشش کی، اہل پاکستان ان کے ہی خلاف ہو گئے اور وہ محاذ آرائی شروع کی کہ ہائے توبہ، انھیں قدامت پرست کہاگیا،خدائی فوجدار کہہ کر گالیاں دی گئیں اور ان کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج کیے گئے۔
اس کے بعد خدا نے ایک ایسا آمر مسلط کیا جس نے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی ،شہروں میں بمباری کرائی اور قیامتو ں کے دور جاری کر دیے مگر اہل پاکستان نے ان سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی بلکہ بدی اور شرپسندی میں بڑھتے ہی جارہے ہیں،جس سے نہ صرف بر صغیر کا امن خطرے میں ہے بلکہ عالمی برادری بھی پاکستان سے ناراض ہے۔
اہلیان پاکستان میں ایک اور خرابی پیدا ہوتی چلی جارہی ہے ، وہ شکر گذار اور احسان شناس نہیں ہیں، وہ قوم کے ان نایاب ہیروں اور انمول رتنوں کے قدردان نہیں ہیں جنھوں نے پاکستان کی رگوں میں اپنا لہو دوڑا یا ہے اور اس سلطنت خدادا دکو دنیا کے مقابل کھڑاکیا ہے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور پر وفیسر عبد القدیر ایسے نام ہیں جنھیں ان کے شایان شان مقام نہیں ملا نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان کے مطابق انھیں پاکستان سے چھین لیا۔”لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدO…..تم اگر میرا شکرادا کر وگے تو میں اوردوںگا اور اگر تم نے ناقدری کی تو بے شک میرا عذا ب بہت سخت ہے۔” وہ روز اس آیت کریمہ کو پڑھتے ہوں گے مگر اس کے مفہوم سے عاری ہیں۔یہ تو رہنے دیجیے ،اقبال کی نصیحت کو بھی انھوں نے پس پشت ڈال دیا: خدانے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بد لنے کا
یہ دستور محفل ہے کہ اور آئین بزم ہے کہ جو لوگ ہاتھ بڑھاتے ہیں ان کے ہاتھ میں ہی جام و مینا آتے ہیں اور ہاتھ پے ہاتھ دھر کر رہنے والے لوگ نعمتوں بھر ے دسترخوان سے بھی بھوکے پیاسے لوٹ جاتے ہیں۔ میں نے پڑھا ہے کہ شہیدوں کی قربانیاںرائیگاں نہیں جاتی اسی طرح جو زمین لہو دیکر سینچی جاتی ہے وہ ہمیشہ ہری بھری بلکہ آباد و سرشار رہتی ہے مگر پاکستان کو دیکھ کر نہیں لگتا کہ ایسا ہوتاہے۔ انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات