تحریر : وقار احمد اعوان خبر آئی ہے کہ پاکستان ریلویز کی تاریخ کے طاقتور ترین انجن گزشتہ روز ریلوے فلیٹ کا حصہ بن گئے۔ وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے امریکہ سے درآمد کیے گئے چار ہزار ہارس پاور کے انجنوں کا انسپکشن کیا۔ امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک کمپنی نے پاکستان میں انجنوں کا ٹرائل مکمل کرلیا ہے۔ وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے گزشتہ روز امریکی ساختہ انجنوں کا باقاعدہ افتتاح کیا، جس کے بعد انجنوں کا کارباری مقاصد کے لیے باقاعدہ استعمال شروع ہو گیا۔ یہ انجن مال برداری کے لیے استعمال ہوں گے اور ہر انجن 3400ٹن پے لوڈ کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے جبکہ پاکستان ریلویز اس سے پہلے دوسو سے سوا دو ہزار ٹن صلاحیت کے حامل انجن استعمال کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ یہ امریکی انجنوں کی دوسر ی کھیپ بھی پاکستان پہنچ گئی ہے جبکہ جولائی کے مہینے میں تمام 55امریکی انجنوں کی پاکستان ترسیل مکمل ہوجائے گی۔بہرحال 30کے قریب نئے انجن کی پاکستان ریلوے میںشمولیت سے ریلوے کے مسائل کے حل میں خاطرخواہ حد تک مدد ملے گی،جوکہ اپنے مقررہ ہد ف سے 10سے 15سال زیادہ چلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اسی طرح ریلویز کی آمدن بھی گزشتہ ادوار سے بڑھ چکی ہے کہ جس میں شالیمارایکسپریس کی آمدن 66کروڑسے بڑھ کر ایک ارب 80کروڑتک پہنچ چکی ہے۔ملک بھر میں 2400کے قریب مختلف جگہوںپر سرے سگنلز ہی موجود نہیں،جسے پاکستان ریلوے سی پیک کی تکمیل سے پہلے مکمل کرنے کا بھرپور ارادہ رکھتی ہے۔اس کے علاوہ 4سالوںمیں 87سگنلز مکمل کئے جاچکے ہیں۔جس میں 10سند ھ حکومت کی مدد سے تکمیل کے مرحلے تک پہنچے۔ریلوے کی ادائیگیوںمیںبھی گزشتہ ادوارکے مقابلے میں اضافہ دیکھنے کومل رہاہے۔پاک فوج کی مدد سے الارم سگنلز پرکام جاری ہے جو سال کے آخر میں کام کرنا شروع کر دیں گے۔
انگریز دور 1861 میں ریلوے کراچی سے کوٹری تک 169کلو میٹر ریلوے لائن بچھائی گئی تھی اس میں توسیع ہوتے ہوتے اب پانچ ہزار میل سے زائد پٹری موجود ہے لیکن بہت سے سیکٹربند کردئیے گئے ہیں پاکستان ریلویز 1980سے روز بروز زوال پذیر ہے جس میں افغان مہاجرین کی آمد نے جلتی پہ تیل کا کام کیا حالانکہ پوری دنیا میں کہیں بھی مہاجرین جاتے ہیں تو انہیں محدود جگہوں پر ہی رکھا جاتا ہے نا کہ انہیں پورے ملک میں گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی جائے افغان مہاجرین کی آمد سے ہماراٹرانسپورٹ کا شعبہ بہت بری طرح متاثر ہو ا کیونکہ ان میں سے بہت سے لوگ افغانستان سے آتے ہوئے ٹرالر بھی ادھر لے آئے جنہیں اس وقت کے صدر ضیا ء الحق نے عارضی روٹ پرمٹ دئیے جس کی وجہ سے کراچی سے پشاور تک انہوں نے مال برداری شروع کرکے نا صرف مین روڈز کو تباہ کردیابلکہ ریلوے کے فریٹ سسٹم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اس کے بعد تو یکے بعد دیگرے وزیر ریلوے ان اشخاص کو بنایا گیا جو کسی نہ کسی طرح ٹرانسپورٹ کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے اس کے نتیجے میں ریلوے کا ٹائم ٹیبل بھی پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کی مرضی سے بننے لگے اس بہتی گنگا میں پھر جس کا بھی داو لگا اس نے ریلوے کو لوٹنا شروع کر دیا۔
ریلوے اہلکار بغیر ٹکٹ سفر کرنے والوں سے رقمیں بٹورکرانہیں بحفاظت اسٹیشن سے باہر تک چھوڑنے لگ گئے،انجنوں میں جعلی موبل آئل کا استعمال شروع کردیا غرضیکہ سب اسی شاخ کو کاٹنے لگ پڑے جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے ۔بد دیانتی اور نا اہلی کی وجہ سے کوئی ٹرین بھی اپنے مقررہ وقت پر اپنی منزل پر نہ پہنچ سکی راستے میں انجن فیل ہونے لگے جس کی وجہ سے مسافر اپنے اہل و عیال سمیت زلیل و خوار ہوگئے کبھی ڈیزل کی عدم دستیابی کبھی کچھ۔ آہستہ آہستہ مسافر ٹرین کی بجائے بسوں کو اپنی اپنی منزلوں کا وسیلہ سمجھتے گئے اور ریلوے کا خسارہ مزید بڑھتا گیا عین ممکن تھا کہ ملک کا ایک بہت بڑا ادارہ دیوالیہ ہوجاتا اور ہزاروں اہلکار بے روز گار ہوجاتے کہ موجودہ حکومت نے ریلوے کا محکمہ خواجہ سعد رفیق کے حوالے کردیا جس نے باقی منسٹروں کی طرح دعوے نہیں کئے بلکہ اپنا کام یکسوئی سے شروع کردیا جس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں بلکہ کرایوں میں کمی سے بہت جلد مزید بہتری ہوتی نظر آئے گی اب 70 کے قریب انجن آپریشنل ہیں اگلے چنددنوں میں مزید اتنے ہی انجن آپریشنل ہوجائیں گے جوورکشاپس میں ہیں اور ان پر کام ہورہا ہے ان کی آمد سے مال گاڑیاں بھی پٹری پر آجائیں گی اورریلوے کے منافع میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا۔
اسی طرح پاکستان کے ایک معروف اخبار نے پاکستان ریلوے کی گزشتہ چھ ماہ کی کارکردگی پر ایک رپورٹ شائع کی۔رپورٹ میں یہ خوش کن انکشاف کیا گیا کہ ریلوے کے اچھے دنوں کا آغاز ہو گیا ہے اور گزشتہ پانچ برس سے مسلسل خسارے میں چلنے والی پاکستان ریلوے کی آمدن میں بالآخر بہتری آنا شروع ہو گئی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جون 2012 سے دسمبر 2012 تک پاکستان ریلوے کی آمدن صرف 6 ارب 76 کروڑ روپے تھی جبکہ 2013 کے آخری چھ ماہ کے دوران یہ آمدن بڑھ کر9 ارب 18کروڑ 20 لاکھ روپے تک جا پہنچی ۔ آمدن میں اس اضافے کی وجہ ٹرینوں کی آمد و رفت میں بہتری اور مسافروں کے لئے اسٹیشنوں اور ٹرینوں میں سہولیات میں بہتری لانا اور محکمہ خوراک کی مدد سے اسٹیشنوں پر اور ٹرینوں میں فروخت ہونے والی کھانے پینے کی مصنوعات کے معیار کو بہتر بنانا ہے۔ تاہم مذکورہ رپورٹ میں مال گاڑی سے حاصل شدہ رقم کو الگ سے واضح نہیں کیا گیا اور بیان کردہ آمدن تمام ذرائع سے حاصل شدہ رقم ہے۔اگربذریعہ ٹرین سفر کرنے والوں کی تعداد کا ذکر کیا جائے تو ملک بھر میں چلنے والی ٹرینوں سے گزشتہ برس اگست، ستمبر اور اکتوبر میں 61لاکھ 21 ہزار 786 افراد نے سفر کیا جبکہ 2012 کے اسی دورانیے میں ٹرین پر سفر کرنے والوں کی تعداد46 لاکھ 37 ہزار 618تھی۔اسی طرح ٹرینوں کی آمد و روانگی میں 42 سے 52 فیصد بہتری آئی ہے۔اس لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ پاکستان ریلویز مزید اقدامات اٹھاکر ریلویز کو بہتر سے بہتر بنائے تاکہ عوام کو سستی سفری سہولیات میسر آ سکیں۔