پاکستان میں رمضان المبارک کا آغاز ہو چکا ہے اس ماہ آخرت کا سامان اﷲ رب العزت کی جانب سے انتہائی سستا کر دیا گیا ہے مگر پاکستان میں دنیاوی سامان مہنگا ہو چکا ہے یوں تو رمضان المبارک مقدس اور رحمتوں کا مہینہ ہے لیکن تاجروں کے لیے منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کے لیے موضع ترین بن جاتا ہے رمضان سے مطالق مشروبات ،کھانے پینے کی اشیاء نایاب اور اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں کہ عام خریدنے کا سوچ بھی نہیں رہا جیسے ہی اب آمدن رمضان ہو چکی ہے ہر چیز کے دام دگنے چگنے کر دیئے گئے ہیں عوام غربت کے ہاتھو ں پہلے ہی پریشان ہے ،مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے ، پیٹرول کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں اسی طرح اشیاء صرف اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔
دراصل ہمارے حکمرانوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ایک غریب کیسے گزرا کرتا ہے ، اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جتنی لوٹ مار منافع خور مافیہ اور تماشائی حکمران خود ایک مجرم ہے جو کہ ایک مجرمانہ جرم ہے قیمتوں میں روز بروز اضافہ کیا جارہا ہے جس سے عوامی مسائل میں بد ترین اضافہ ہورہا ہے اب یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ نئے پاکستان والوں نے پرانے پاکستا ن والے حکمران کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور عوام کو شدید ازیت میں مبتلا کر دیا ہے اب اس مقدس مہینے کو اتنا اجیرین بنادیا ہے کہ 6 سے 15000 ہزار کمانے والا مشکلات میں زندگی بسر کررہا ہے دوسری جانب مہنگی اور غیر معیاری اور دو نمبر مشروبات ، کھانے پینے کی اشیاء روزے داروں کو مختلف بیماریوں میں مبتلا کر رہی ہیں مہنگی اور جعلی اشیاء فروخت کی جارہی ہیں اور حکومت وقت اس پر مہنگے ٹیکس وصول کر رہی ہے نیکیوں کے مہینے میں حکومت اور منافع خور تاجر خوب عذاب کمارہے ہیں ، اسلام ہمیں مساوات کا سبق دیتا ہے۔
اسلام جو کہتا ہے کہ آپکا پڑوسی بھوکا نہ سوئے لیکن رمضان شروع ہوتے ہی مسلمان تاجر ناجائز منافع کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اچھا خاصہ کمانے والے کا بجٹ بھی بگڑ جاتا ہے متواسط اور غریب طبقات کے دستر خوان پر جو کبھی پھل دکھائی دیتے تھے وہ آج غائب ہو گئے ہیں رمضان کا سب سے زیادہ اثر مہنگائی سے تنگ ان طبقات پر پڑ رہا ہے جن کے لیے ضروریات زندگی شجر ممنوعہ تھا اور اب غریب دیہاڑی دار جو روز تازہ کماتے اور کھاتے ہیں جن کو ایک دن کام نہ ملے تو دوسرے دن گھر فاقہ ہوتا ہے ، ان کے لیے اس مہنگائی کا مطلب ہے فاقوں میں اضافہ اور سیاسی لوگ اور دیگر تنظیمیں رمضان میں افطار ڈنر کررہے ہیں جن میں لاکھوں روپے زیادہ تر سرکاری خزانے سے ہی خرچ کر دیئے جاتے ہیں یا پھر علاقائی بجٹ کے پیسوں میں سے غائب کر دیئے جاتے ہیں جو کہ ان کے اکائونٹ میں منتقل ہوجاتے ہیں جس سے مہنگی ترین افطار ڈنر کا اہتمام کیا جارہا ہے مگر حلقے میں موجود کسی غریب کا خیال تو دور حال تک پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں ہے اور دوسری جانب بازاروں میں عید کی شوپنگ ک حوالے سے رش بڑ رہا ہے اور منافع خور تاجر حضرات مکمل فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
میرے محتاط اندازے کے مطابق 800 سو روپے والا کپڑا 3000 سے4000 روپے یا اس سے زائد میں فروخت کیا جارہا ہے اور حکومت وقت بخوبی خو ب انداز میں ٹیکس وصولی میں مصروف عمل ہے تاجر حضرات کو لگام دینے کے بجائے اعلیٰ سرکاری اورحکومتی اراکین تاجر برادری کے مختلف فنگشنزمیں موجود ہوتے ہیں اور کیمرے کی آنکھ میں براہ راست نظر بھی آرہے ہوتے ہیں اور ساتھ بیٹھ کر میڈیا ٹاک بھی کر رہے ہوتے ہیں اس صورت حال میں کون ان منافع خوروں کو لگام دے گا ۔ اس وقت پرائیوٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں ، نجی اسکولوں کالجوں اور دیگر دوکانوں پر کام کرنے والے سیلز مین اور دیگر نجی شعبوں سے وابستہ افراد ان لوگوں کی وجہ سے رمضان المبارک میں بھی بہتر سہولیات سے محروم ہیں اور عید کی خوشیاں بھی ٹکڑوں میں منانے کی سوچ میں مبتلا ہیں۔
خان صاحب فرماتے تھے کہ ہم عام آدمی کی زندگی آسان سے آسان کر دیں گے مگر عام آدمی کی سواری موٹر سائیکل جس میں ڈلنے والا پیٹرول 100 روپے سے زیادہ میں فروخت کیا جارہا ہے ،دال ، مرغی ،گوشت، سبزیاں سمیت دیگراہم ضروری اشیاء جو کہ عام آدمی کی پونچھ میں تھی وہ بھی دور کر دی گئی ہے اب سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کی تبدیلی ہے جس میں غریب دو وقت کاکھانا تک نہیں کھا سکتا اور نہ ہی اپنے بچوں کو کہی سیر و تفریحی پر لے جاسکتا ہے اور نہ ہی عید کی شوپنگ اچھے اندازمیں کر واسکتا ہے۔
آخر میں میری حکومت وقت اور تاجر برادی سے گزارش ہے کہ رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں برکتوں کا مہینہ ہے ایسا نہ ہو آپ دنیاوی منافع کے کاروبار میں لگ کر اس با برکت مہینے کی چند روزہ برکتوں سے محروم ہوجائیں ، کوشش کیجیئے اس لعنت سے بچیں دعا ہے اﷲ پاک ہم سب کو ذخیرہ اندوزی کی لعنت سے حفاظت فرمائے اور جس طرح انبیاء علیہ اسلام نے تجارت کی ہے اور حضور اکرم ۖ نے تجارت کا حکم دیا ہے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ثمہ آمین۔