سانحہ ماڈل ٹاون کو رونما ہوئے چاردن بیت گئے۔ سڑکوں پر گرنے والی بے گناہ لاشیں منوں مٹی تلے ابدی نیند سو چکی ۔کئی گھر اجڑ گئے زخمی ہونے والے بھی نجانے کب صحت مند زندگی گزارنے کے قابل ہوں گے ۔تاہم اس بے پناہ انسانی اور مالی ضیاع کے باوجود کئی شرافت کے بت بے نقاب ہو گئے اس نازک حالت میں کئی ایسے موقع پرست بھی اٹھے جن کی کھوٹی سیاست کھرے سکے کی طرح آن کی آن میں چمکنے لگی۔
جن سے بات نہ ہوتی تھی۔چشم عالم نے دیکھا کہ وہ یوں بولتے نظر آئے جیسے زبان کی لکنت کا روگ سرے سے ختم ہوگیا۔گویا لوہا گرم تھا جس میں جتنی استطاعت تھی اتنی ہی ضرب کاری لگاتا چلاگیا۔حالات برے تھے بدتر ہوگئے اورخدشہ ہے کہ بدترین ہوجائیں گے ۔کہتے ہیں کہ جب گیڈر کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف دوڑتا ہے۔
چھوٹا منہ بڑی بات ،شاید کچھ ایسی ہی حماقت دوروز قبل پنجاب پولیس سے بھی ہوچکی ہے معاملہ کچھ یوں تھا کہپیر اور منگل کی درمیانی شب تقریبا رات کے دو بجے پنجاب پولیس کے کارندوںنے ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکریٹریٹ پر اس وقت دھاوا بولا جب ایک جہاں محواستراحت تھا ۔ رات کے اس اندھیرے میں پولیس کا ہدف منہاج القرآن کے سیکریٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے گھر کے سامنے لگے ان بیرئیرز کو ہٹانا تھا جو آج سے چار سال قبل خود اس پنجاب پولیس نے اپنی نگرانی میں ہائیکورٹ کے حکم پر لگائے تھے۔
ْْقارئین کرام ! یہاں ایک بات جاننا نہایت ضروری ہے کہ اس بھیانک رات سے دو دن قبل پاک فوج نے دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے کے لیے آپریشن عضب کا آغاز کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں طالبان نے لاہور سمیت کئی اور شہروں اور اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس طاہرالقادری کے گھر کے سامنے سے بیریئرز ہٹانے کی کوشش کی گئی ۔یہ وہی ڈاکٹر طاہرالقادری ہیں جن کی مشہور زمانہ کتاب فتاوی نے تمام دنیا میں دہشت گھردوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی کی بلکہ ان کی تمام کار روائیوں کو قرآن و حدیث کی روشی میں باطل بھی قرار دیا۔
لہذا یہ بات بعید از قیاس نہیں تھی کہ ذخمی سانپ کی طرح بوکھلائیہوئے طالبان طاہرالقادری کے اہل خانہ کو نشانہ بناتے ،بلا شبہ اس طرح رات کے اندھیرے میں جلد از جلد بیریئرز ہٹانے کی کوشش طالبان کے لیے راہ ہموار کرنے کی ایک سنجیدہ اور سوچی سمجھی کوشش ہو سکتی ہے ۔بیریئرز تو شاید رات کو ہی ہٹا دیے جاتے لیکن منہاج القران کے کارکنوں نے مزاحمت کی حتی کہ صبح کا سورج طلوع ہوگیا جس کی روشنی مین وہ گھناو نا فعل سرانجام دیا گیا۔
جورات کے گھپ اندھیرے میں ہو تو شرافت اور تہذیب کا جنازہ نکل جائے ۔تیرہ تھانوں کی پنجاب پولیس نے بکتر بند گاڑیوں کے علاوہ کئی نام نہاد گلوبٹوں کی قیادت میں ظلم و بربریت، جبراو رتشدد کی وہ داستان رقم کی کہ سانحہ جلیانوالہ باغ کی اندوہناک یاد تازہ ہوگئی ۔پولیس ایک طرف نہتے پیروجواں مردوزن پر گولیاں اور ڈنڈے برساتی رہی تو دوسری طرف گلو بٹ نامی غنڈہ شہریوں کی املاک اور گاڑیوں کا کباڑہ کرتا رہا۔
Shahbaz Sharif
جبکہ تخت لاہور کے والی وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف اور وزیر قانون راناثناء اللہ 13گھنٹے تک ہونے والے اس مسلسل آپریشن کی تمام تر کاروائی سے لاعلم نظر آئے ۔پولیس کی آنکھوں میں تو خون اترا ہوا تھا ۔اسی لیے ان اندھوں بے ضمیروں نے لاشوں پر بھی ڈنڈے برسائے ۔خواتین کو نوچا ،بزرگوں کو انکی داڑھیوں سے پکڑ کر گھسیٹاستم عظیم یہ کہ مار مار کر بھی کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو طبیامداد پہنچانے والوں کا راستہ روک ڈالا۔ان پر ڈنڈے برسائے تاکہ وہ مرتے ہوئوں کی مسیحائی نہ کرسکیں۔
قارئین کرام ! آج پنجاب پولیس جس گلو بٹ کو بعد از رگرفتاری پاگل قرار دے رہی ہے اسکا پاگل پن واقعی حد سے بڑھا ہوا ہے مورخہ یکم اپریل کو یہی گلو بٹ اپنے ایک ساتھی زیڈ جعفری کے ہمراہ خادم اعلی پنجاب کی ہنستی مسکراتی تصویر والا کارڈ گلے میں لٹکائے میرے زیر تعمیر مکان پر آیا۔اور خود کو TMA کا ملازم بتا کر مختلف حربوں سے رقم بٹورنے کی سعی کرنے لگا۔
وہ باربار خادم اعلی پنجاب کے ساتھ تعلقات اور دور تلک رسائی کا کہتا رہا اور پھر جب میں نے اسکے ہاتھ پر ایک کرارہ ونوٹ رکھا تو فورا لہجہ بدل کر کسی بھی قانونی اور غیر قانونی کام کے لیے حاضیر ہونے کا یقین دلاتے ہوئے نکل گیا۔ لیکن جاتے ہوئے اپنا موبائل نمبر ضرور دے گیا۔اس گلوبٹ کی اصلیت میں اسی دن جان گیاتھا کہ یہ پولیس کا ٹاوٹ صرف نوٹ کا یار ہے جس کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ قارئین کرام اس واقعے کے بعد گلوبٹ نے گرفتاری دے دی اور بیان دیا کہ وہ تو وہاں مذاکرات کروانے گیا تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا گلو بٹ کوئی بہت بڑا سیاسی قد کاٹھ رکھتا ہے یاپھر پہلے وہ ثالثی کے باب میں کوئی اہم کردارادا کر چکا ہے۔
اگر نہیں تو پھر یہ بیان اس گلو اور اس جیسے کئی اور گلو ئو ں کی ضرورت اور مجبوری ہے کیونکہ حاکم جماعت ہی تو اس گلو اور اس جیسے کئی اور گلووں کی کفیل ہے قارئین کرام ! گلو بٹ محض ایک کردار نہیں بلکہ اس بد معاش اور بد قماش سیاسی نظام کا استعارہ ہے جو ہمارے ملک پاکستان کانصیب بن چکا ہے۔لیکن یاد رہے کہ تصویر کا دوسرا رخ بہت خطرناک ہے جس کا نظارہ ماڈل ٹائون کچہری میں گلو بٹ کی پیشی پر دیکھا گیا۔
جیسے ہی گلو بٹ کو چہرے پر کپڑا ڈال کر عدالت میں پیش کیا جانے لگا و ہاں کئی لوگوں نے اس پر حملہ کردیا۔وہ دل کی بھڑاس نکال لینا چاہتے تھے۔مگر آفرین ہے پولیس گلو دوستی پر جس نے نہ صرف اسے بے ہوش ہونے کا مشور دیا ۔بلکہ اسکو بچا کر بھی لے گئی۔
قارئین کرام گلو کو پڑنے والا ہر جوتا اس نظام کی تباہی کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ گلو ہو یا الو ضرور کیفر کردار کو پہنچے گا۔گلو واقعی الو ہے وہ نہیں جانتا کہ جس شاخ نازک پربیٹھا وہ چہچہا رہا تھا۔وہ کسی بھی وقت خزاں کی نذر ہوسکتی ہے اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ نازک حالات میں جدہ روانہ ہونے والے کسی جہاز میں کسی گلو بٹ کے لیے کوئی سیٹ نہ پہلے کبھی ریزرو ہوئی تھی اور نہ آیند ہ ہو گی،وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ تو صرف ایک ٹشو پیر ہے جس کے استعما ل ہوتے ہی اسکو پھینک دیا جائے گا ۔قارئین دعا کریں کہ اس ارض پاک پر مزید گلو بٹ جیسے کردار پیدا نہ ہوں جو صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک نظام ہے اور اگر ہوں بھی تو پیدا ہوتے ہی انکا گلا گھونٹ دیا جائے۔
Terrorists
ارض پاک پر وقت نازک ایک طرف ،دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے پاک فوج کے نوجوان ضرب عضب کے نام سے شروع کیے جانے والے آپریشن میں کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں تو دوسری طرف قوم کے اتحادکو پاش پاش کرنے کی سازشیں بھی ہو رہی ہیں اس لیے تمام محب وطن پارٹیوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کے دھرنے جلوس اور لانگ مارچ کو فی الحال نظراندازکر دیں،تاکہ پوری یکسوئی کے ساتھ پہلے ایک ناگزیر مشن کو کامیاب بنایا جاسکے ۔