تحریر : سید عبدالوہاب شیرازی ویسے تو جمعیتوں کی تاریخ کافی پرانی ہے، پاکستان بننے سے قبل ہی مختلف ایشوز پر جمعیتیں بننا شروع ہو گئیں تھیں۔ جمعیت علمائے ہند کا قیام بھی پاکستان بننے سے قبل ہوا۔ شروع شروع میں تمام مسالک کے علماء اس کا حصہ تھے اور یہ سب علماء کی مشترکہ جمعیت تھی، لیکن آہستہ آہستہ اس جمعیت سے کئی جمعیتیں بنتی گئیں۔ آزادی کے بعد ہند اور پاکستان کے سابقے اور لاحقے کے ساتھ دو تقسیمیں تو یہی ہوگئیں تھی، پھر آہستہ آہستہ مسالک نے اپنی اپنی جمعیتیں الگ الگ بنانا شروع کردیں۔ چنانچہ ہر ہر مسلک کی اپنی الگ جمعیت بن گئی۔ پھر اسی پر اکتفاء نہیں ہوا بلکہ ہرمسلک کی جمعیت نے بچے دینے شروع کردیے اور ہر مسلک میں کئی کئی جمعیتیں بن گئیں، جن میں فرق کرنے کے لئے حروف تہجی کو بریکٹ میں لکھا جانے لگا۔چنانچہ آج دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ہر مسلک میں تین تین چار چار بلکہ اس سے بھی زیادہ(پندرہ بیس) جمعیتیں موجود ہیں۔
اگر جمعیتوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اکثر جمعیتیں اسی طرح وجود میں آئیں جیسے کسی مارکیٹ یا کسی خاص طبقے کی یونین بنتی ہے، چنانچہ یونین کا مقصد محض اپنے مطالبات کا حصول ہوتا ہے، جب تک ان کے مخصوص مطالبات پورے ہوتے رہیں سب اچھا کی رپورٹ ہوتی ہے۔ لیکن جونہی کوئی ایسا قانون یا فیصلہ آئے جس سے اپنے خاص مفادات پر زد پڑتی ہو تو یونین فورا حرکت میں آجاتی ہے اور احتجاج کرتی ہے۔ مذہبی جمعیتوں کی بھی حالت اسی طرح رہی ہے یعنی ہرجمعیت ایک مارکیٹ یا خاص طبقے کی یونین کی طرح کام کرتی ہے، جہاں اپنے مفادات یا مطالبات کی بات ہو تو جمعیت حرکت میں آجاتی ہے۔
جمعیت کے برعکس تحریک کا تصور ذرا مختلف رہا ہے۔ پاکستان سے قبل بھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی ہندوپاک میں مختلف تحریکیں کھڑی ہوئیں اور اپنے مطالبات منوائے۔ جمعیت کا کام محدود ہوتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے مارکیٹ کی یونین وغیرہ۔ جبکہ تحریک کا کام بڑا اور بعض اوقات لامحدود ہوتا ہے۔ اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہندوستان وپاکستان میں جمعیتوں نے کوئی خاص بڑا کام نہیں کیا، ان کی جدوجہد اپنے خاص مفادات تک ہی محدود رہی ہے۔ جبکہ تحریکوں نے قومی سطح کے بڑے بڑے کارنامے سرانجام دیے، اور بڑی بڑی کامیابیاں بھی حاصل کیں ہیں۔
تحریکیں کیوں کامیاب ہوئیں؟ دراصل تحریکوں کی کامیابی کی دو وجوہات ہیں: ایک وجہ اخلاص اور ایمانی جذبہ ہے۔ جتنی بھی تحریکیں کھڑی ہوئیں ان کے پیچھے ایک درد، غم، ایمان ویقین کی دولت اور اخلاص وللٰہیت، اور سخت محنت کار فرما تھی۔دوسری وجہ فروعی جھگڑوں، مسلکی اختلافات اور ذاتی انا سے ہٹ کر کام کرنا ہے۔چنانچہ آپ تحریک ختم نبوت کو دیکھیں یا تحریک تبلیغی جماعت کو ان دونوں کے پیچھے یہی عوامل کارفرما رہے ہیں۔ عام طور پر تحریکوں میں تمام مسالک کے لوگ مل کرکام کرتے ہیں ، تحریک ختم نبوت میں ہرمسلک نے بھرپور کام کیا، یہاں تک کہ اہل تشیع جن کے ساتھ اہل سنت کا اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی ہے وہ بھی اس تحریک کا حصہ رہے ہیں۔
جب اتنے اخلاص اور اتحاد کے ساتھ کام کیا جاتا ہے تو اللہ بھی ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے۔ ستر کی دہائی میں ہندوستان کی حکومت نے مسلمانوں کے عائلی قوانین میں تبدیلی کی تو قاری طیب قاسمی اور پھر ان کے بعد مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہمااللہ نے بھرپور تحریک چلائی ، ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بارہ سے پندرہ فیصد ہے لیکن اس کے باوجود یہ تحریک کامیاب ہوئی اور ہندوستان کی حکومت مسلمانوں کے عائلی قوانین کو سابقہ اصل اسلامی حالت پر برقرار رکھنے پر نہ صرف مجبور ہوئی بلکہ پارلیمنٹ اور سینٹ سے بل پاس کرکے اسے قانون اور آئین کا حصہ بھی بنا دیا کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین اسلام کے مطابق ہی رہیں گے۔
جبکہ ہمارے ہاں ساٹھ کی دہائی میں غلام احمد پرویز منکر حدیث نے عائلی قوانین کو تبدیل کرکے غیراسلامی کرکے ملک میں نافذ کردیا اور اس وقت سے لے کر آج تک باوجود 95 فیصد مسلمان ہونے کے ہمارا عائلی قانون غیر اسلامی ہے۔ اس عرصے میں شاید ہی کوئی ایسی اسمبلی گزری ہو جس میں جمعیت اور جماعت اسلامی کے کچھ نہ کچھ لوگ بیٹھے ہوئے نہ ہوں۔ جب پاکستان بنا تھا اس وقت یہ قوانین اسلامی تھے ، اور تقریبا پندرہ سال تک اسلامی رہے، پھر غیر اسلامی کردیے گئے اور ہم پارلیمنٹ کے ذریعے پچھلے ساٹھ سال سے ان عائلی قوانین کو اسلامی نہیں بنا سکے۔ اس کے برعکس جن جن ایشوز پر تحریکیں چلی ہیں انہیں کامیابی ملی ہے، جیسے تحریک ختم نبوت جسے مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ جیسی مخلص، بے باک اور بے غرض شخصیت کی قیادت حاصل تھی۔ اسی طرح تحریک نظام مصطفیٰ جس کے نتیجے میں کم از کم آئین تو اسلامی ہوگیا۔ آگے مزید کام بھی ہوجاتا اگر اس تحریک کو درمیان میں ختم نہ کردیا گیا ہوتا۔
چنانچہ آج بھی اگر کامیابی حاصل کرنی ہے تو تمام مسالک کی تمام جمعیتوں کو مل کر تحریک چلانی ہوگی۔ تحریکوں کوکتنی جلدی اور کتنی بھرپور کامیابی ملتی ہے اس کا اندازہ مذہبی طبقے کونہیں البتہ سرمایہ داروں جاگیرداروں اور ان طبقات کو اس کا ٹھیک ٹھیک اور پورا پورا انداہ ہے جو ستر سال سے حکمران ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ طبقات اب آئندہ کے لئے کوئی تحریک شروع نہیں ہونے دیتے۔ پچھلے پندرہ بیس سال میں مخلصین امت غیرسیاسی علمائے کرام نے کئی بار تحریک چلانے کی کوششیں کی لیکن ہمیشہ موجودہ سیاست کے حصے دار مذہبی جماعتیں رکاوٹ بن گئیں۔ 80 کی دہائی میں حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے سینکڑوں علماء کئی دن تک سرجوڑ کر بیٹھے رہے اور بھرپور تحریک چلانے کا اعلان ہوا۔ پھر چند سالوں بعد اسی طرح سینکڑوں علماء نے امام اہلسنت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کی قیادت میں بھرپور تحریک چلانے کی کوشش کی۔ پھر اس کے بعد مفتی جمیل خان، مفتی نظام الدین شامزئی سمیت بے شمار غیر سیاسی علماء کوششیں فرماتے رہے لیکن ہمیشہ سیاسی نظام میں جڑا ہوا مذہبی طبقہ غیرمحسوس طریقے سے رکاوٹ ڈال کر ابتدا میں ہی ان تحریکوں کو ناکام بناتا رہا۔
ابھی حال ہی میں چند مہینے قبل ملک کی 36 مذہبی جماعتوں نے منصورہ میں بہت بڑی بیٹھک کی جس میں سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ہمیں مل کر نظام مصطفیٰ کے لئے تحریک چلانی چاہیے۔ لیکن افسوس صد افسوس اس بار بھی وہی ہوا جو اس سے قبل ہوتا رہا اور انہیں نے کیا جو اس سے قبل بھی کرتے رہے۔ 36 میں سے 35 جماعتوں سے پوچھ لیں اس اتحاد کو توڑنے اور اس اتفاق کو افتراق میں بدلنے کا کردار کس بڑی مذہبی سیاسی جماعت نے ادا کیا۔