بھارتی فضائیہ نے اعترا ف کیا ہے کہ بھارت بیک وقت پاکستان اور چین سے جنگ کے مشترکہ خطرے سے نمٹنے سے قاصر ہے۔ بھارتی فضائیہ کا یہ اعتراف بھارتی حکام اور عوام پر بم بن کر گرا ہے جس سے دو محاذوں پر بیک وقت لڑنے کے حوالے سے بھارت کی صلاحیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ معروف بھارتی اخبار دی ہندوستان ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈین ائرفورس آئی اے ایف نے پارلیمانی پینل کے سامنے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بھارت چین اورپاکستان دونوں ممالک کیساتھ بیک وقت جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی فضائیہ کے حکام کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان مخالفت یا جنگ شروع ہو جاتی ہے تو چین بھارت کیلئے خطرہ نہیں بنے گا تاہم اگر چین بھارت کے خلاف جارجیت کرتا ہے۔
تو پاکستان کی حالت یقیناً پانی میں تڑپتی مچھلی کی طرح ہو گی۔ پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے اجلاس میں خطرے کی گھنٹیاں بجاتے ہوئے آئی اے ایف کے حکام نے کہا کہ پاکستان اور چین کے مشترکہ خطرے سے نمٹنا انتہائی ہو گا تاہم بھارتی فضائیہ اس سلسلہ میں مکمل تیار رہے گی۔ بھارتی فضائیہ کے حکام نے کہا کہ ہم نے دونوں ممالک کے ساتھ مشترکہ جنگ کی صورت میں جنگی پلان تیار کیا ہے اور بھارت نے کم سے کم دفاعی صلاحیت کے حوالے سے چین کے بارے میں اپنی پالیسی کو اپ گریڈ کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی نے بھارت کے کمزور سرحدی انفراسٹرکچر پر تشویش کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ چین کی جانب سے فوج میں جدت لانے اور انفراسٹرکچر کی ترقی سے دونوں ممالک کے درمیان سٹرٹیجک توازن متاثر ہو گا۔
19 ہزار ایٹمی ہتھیار دنیا کو کسی بھی لمحے ملیاملیٹ کرسکتے ہیں’ اس وقت دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد تقریباً 19 ہزار ہے’ 1945ء سے اب تک بنائے گئے سوا لاکھ ایٹمی ہتھیاروں میں سے 97 فیصد امریکہ اور روس نے بنائے ہیں۔ ان میں سے 420 ایٹمی ہتھیار مسلم ممالک اور باقی ایٹمی طاقتوں کے پاس ہیں۔ ایٹمی ممالک میں اسرائیل 200 ایٹمی ہتھیاروں کیساتھ سرفہرست ہے۔ پاکستان اور بھارت ہر ایک کے پاس 100 ایٹمی ہتھیار ہیں جبکہ اس سے متضاد ربرطانیہ کے پاس مسلمہ ایٹمی قوتوں میں شامل ہونے کے باوجود صرف 225 ایٹمی ہتھیار ہیں۔ بھارت’ اسرائیل’ شمالی کوریا’ پاکستان اور جنوبی کوریا نے تجدید ایٹمی اسلحہ معاہدے سے باہر رہتے ہوئے چھوٹے اور کم ہلاکت خیز ہتھیار بنائے۔ جنوری 2014ء کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کی پاس ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 650 ہے جنہیں 800 سے زائد بیلسٹک میزائلوں اور طیاروں سے چھوڑا جاسکتا ہے۔ 2700 ایٹمی ہتھیار تلف کئے جانے کے منتظر ہیں۔ تمام ایٹمی ہتھیاروں کی مجموعی تعداد 27400 ہے۔
جس میں 2130 آپریشن وار ہیڈ’ تقریباً 1150 آبدوزوں’ بیلسٹک میزائلوں اور 470 بین البراعظمی میزائل شامل ہیں۔ 300 سٹریٹجک ہتھیار امریکی جنگی فضائی اڈوں پر ذخیرہ جبکہ 200 نان سٹریٹجک یورپ اور دیگر ملکوں کے 2530 سٹوریجز میں موجود ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں انتہائی افزودہ یورینیم کی تعداد 1390 ٹن اور پلوٹونیم کی تعداد 490 ٹن ہے۔ 290 ٹن تابکاری مادے غیر فوجی مقاصد اور ہسپتالوں کیلئے استعمال ہوں گے۔ 1958ء میں دنیا بھر سے 10 ہزار سائنسدانوں نے ایک پٹیشن پر دستخط کرکے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ارسال کی اور التجاء کی کہ ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤں کو روکا جائے۔دنیا نے پاکستان کو ایک ذمہ دار ایٹمی ملک کے طور پر تسلیم کرلیا ہے اور پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی سکیورٹی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
Pakistan
لیکن پاکستان کو این ایس جی سے باہر ر کھنا غیر حقیقی ہے امید ہے کہ وہ جلد پاکستان کی یہ بات بھی تسلیم کرلینگے۔ جوہری مسائل کے حل کیلئے عالمی تعاون بنیادی ضرورت ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئے، یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے،پاکستان کو انرجی سیکٹر میں ضروریات پوری کرنے کیلئے جوہری مواد کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پاکستان کو اقوام عالم کی ضرورت ہے۔مئی کا مہینہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔28مئی 1998 کومیاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور انکے ساتھیوں کی محنت کے بعد ایٹمی دھماکے کئے اور پاکستان کے دفاع کو مضبوط کیا۔ایٹمی پاکستان آج دشمنوں کو کھٹکتا ہے ۔جماعة الدعوة نے 21مئی سے28مئی تک ہفتہ یوم تکبیر منانے کا اعلان کیا ہے لاہور سمیت ملک بھر کے مختلف شہروں و علاقوں میں پروگرام ترتیب دیے جارہے ہیں۔
پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر میں کئے جانے والے جلسوں، کانفرنسوں اور سیمینارزکا انعقاد کیا جائے گا۔ جماعةالدعوة کی جانب سے ہفتہ تکبیر مہم کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر تشہیری مہم چلائی جائے گی۔حافظ محمد سعید کہتے ہیں کہ یوم تکبیر پاکستان کے دفاع کے حوالہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت بین الاقوامی قوتیں ایٹمی پاکستان کو نقصانات سے دوچار کرنے کی خوفناک سازشیں کر رہی ہیں۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت دہشت گردی اور فرقہ واریت کو پروان چڑھایاجارہا ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر ان سازشوں کو ناکام بنانا اور قوم میں اتحادویکجہتی کا جذبہ پیداکرنے کی ضرورت ہے۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے جوہری سلامتی کے غیر رسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جوہری سلامتی ایک مسلسل اور قومی ذمہ داری ہے اور جوہری سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے قومی اور عالمی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ جوہری عمل کو مؤثر بنانے کیلئے اسے وسعت دینے کی ضرورت ہے۔
اور جوہری توانائی ادارے کے رکن ملک کانفرنس کے فیصلوں کی پاسداری یقینی بنائیں۔ اس وقت یہ تاثر زائل کرنے کی ضرورت ہے کہ ایٹمی سپلائی گروپ نئے قوانین اور قواعد لاگو کر رہا ہے اور 2016ء کے بعد جوہری تحفظ سے متعلق مزید قریبی تعاون پر توجہ دینا ہوگی اور آئی اے ای اے اقوام متحدہ ایٹمی تحفظ کنونشن متعلقہ عالمی فورمز میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جوہری تحفظ میں ہم آہنگی کیلئے آئی اے ای اے قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے اور جوہری تحفظ کے سربراہوں کی حمایت نچلی سطح پر لانا بھی بہت ضروری ہے،اس حوالے سے جوہری تحفظ کے مجوزہ عمل میں اعلیٰ حکام اور ماہرین کی مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ پاکستان 40سال سے محفوظ ترین جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے،جوہری تحفظ کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ تعمیری کردار ادا کیا،یہ ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہے۔
جوہری سہولتیں اور مواد محفوظ بنانے کیلئے اقدامات جاری رہنے چاہئیں،تاکہ جوہری مواد کی دہشتگردی سے بچا جاسکے۔ پاکستان کے پاس سول جوہری توانائی پیداوار کے لئے تجربہ،افرادی قوت ڈھانچہ موجود ہے ہم سب کو ہسپتالوں،صنعت اور تحقیق کیلئے تابکاری مواد کی ضرورت ہے تاہم ہمیں ان کے خطرات سے بھی آگاہ رہنا ہوگا، پاکستان جوہری تحفظ کو بے حد اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کا معاملہ ہے،پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے،ہم جوہری عدم پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ کم سے کم جوہری ہتھیاروں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے خطے کی ترقی کے لئے امن اور استحکام ناگزیر ہے، ہماری جوہری سلامتی کے پانچ ستون ہیں،جن میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی قیادت میں مضبوط کمان اینڈ کنٹرول سسٹم انٹیلی جنس کا مضبوط نظام اور اس مواد سے بھرپور عالمی تعاون شامل ہے۔
پاکستان جوہری مواد کے فزیکل تحفظ کے کنونشن(سی پی پی این ایم) میں فریق ہے،ہم آئی اے ای اے کے ساتھ ملکر تابکاری ذرائع اور جوہری مواد کی غیر قانونی نقل وحرکت کیخلاف ملکر کام کر رہے ہیں،ہم باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1540کمیٹی کو ان اقدامات کے بارے میں رپورٹس دیتے رہتے ہیں جو حساس مواد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر کنٹرول کیلئے کئے جاتے ہیں۔ جوہری سلامتی کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیشرفت کو مزید مضبوط بنانا ہو گا۔