پا کستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے1950ء میں اپنے خطاب میں فرمایا”پاکستان ایک جمہوری ملک ہے ۔پاکستان کی لیڈر شپ مخلص،بے لوث اورخدمت گزار ہے۔پاکستان کے لوگ پر امن ہیں۔پاکستان کے لوگ جمہوریت کے شیدائی ہیں۔پاکستان زندگی کے ہر شعبے میںترقی چاہتا ہے۔پاکستان کے لوگ اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان دنیا کے لوگوں میں امن اور خوشیوں کو ترقی دینے کا خواہش مند ہے۔پاکستان کے حکمران عوام کی ترقی اور کام یابی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔پاکستان لوگوں کے تعاون اور مددکے ساتھ اقتصادی اور سماجی شعبہ میں ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانا چاہتا ہے۔
پاکستان میں عوام اور حکومت جمہوریت کی جڑیںمضبوط کریں۔پاکستان کو صنعت ،سائنس اور ٹیکنالوجی میںان کے علم کی از حد ضرورت ہے۔ایک مستحکم پاکستان دنیا میں امن کی ضمانت ہے۔پاکستان ایشیا ء میں امن کو فروغ دے گا اور وہاں سے یہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیل جائے گا۔پاکستان ضرور ترقی کی راہوں پر ہو گا”۔پاکستان میں ہر ”بندش” کے بعد جو تبدیلی آتی ہے نقار خانے میں یہی آوازہ پڑتا ہے یہ تبدیلی حقیقی نہیںپاکستان اب کی بار ”حقیقی بندش ” کی بجائے ” جمہوری بندش” کا شکار ہو گیا ہے ۔ہارنے والی ہر سیاسی پارٹی کا دعوی ہے حقیقی تبدیلی ہمارے آنے سے ہی آئے گی۔
اس حقیقی تبدیلی کا خواب دیکھتے عوام کی آنکھیں پتھرا چکی ہیں،جسم بے جان ہو چکا ہے ،جو لباس محترم قائد اعظم محمد علی جناح عطا کر گئے تھے ۔وہ چیتھڑوں میں بدل چکا ہے۔پاکستان کے پینسٹھ برسوں میں سبھی سیاست دان سیاست کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر رہے ہیں۔جو اقتدار سے باہر ہیں ان کے خیال میں اندر والے کھا رہے ہیں۔جب کہ جو اقتدار کا مقدس ہما اپنے سروں پر اٹھائے ہوئے ہیں ۔ان کے خیال میں اقتدار پھولوں کی نہیں کانٹوں کی سیج ہے۔ اس سیج پر انہیں کسی کروٹ سکون نہیں۔
Pakistan
جمہوری دور میں سیاست اتنے بچے نہیں دیتی جتنے ”بندش” کے دور میں دیتی ہے۔”سیاسی ”ہونے کی خواہش ہر آمر جرنیل کو ” خوب سے خوب تر کی تلاش ” میں مصروف کر دیتی ہے۔ریفرنڈم میں کامیابی کی آرزو کسی آمر کو بی ڈی ممبر کی طرف لے جاتی ہے ۔کوئی کونسلر شپ کی بھول بھلیوں سے رستہ ڈھونڈتا ہے تو کوئی ناظم ،ناظم کے کھیل کی طرف بڑھ جاتا ہے۔یہ تلاش انہیں ریفرنڈم میں ” عوامی کام یابی ” سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ آمریت سے دل بھر جائے توکسی کے دل میں جمہوریت کا تختہ کرنے کے بعد پھر جمہوریت کا کھیل رچانے کو کرتا ہے۔
آل ان ون ہونے کی خواہش کسی کو جونیجو دیتی ہے تو کوئی ظفر اللہ خان جمالی کی ”یس باس” سے دل بہلاتا ہے ۔ یہ آمر خود تو اپنا دور جمہوریت گزار کر ”باعزت ‘رخصت ہو جاتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز کوسینکڑوں کی تعداد میں اپنی کوکھ سے جنم لینے والی مزید سیاسی آکاس بیلوں کے سپرد کر جاتے ہیں۔معروف لکھاری فاروق انجم کا ایک جملہ جو میں بھلانے کو کوشش بھی کروں تو یاد رہ ہی جاتا ہے”اسے یوں لگا جیسے وہ کوئی سیاست دان ہو اور کھانے کے لئے اس کے سامنے پورا پاکستان پڑاہو”۔کہتے ہیں ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا”۔اگر کسی نے کہا ہے تو درست ہی کہا ہو گا۔کیونکہ محترم ”دستی ”صاحب اپنے فارم جمع کروانے کے لئے تو ایک گدھا گاڑی پر تشریف لاتے ہیں۔
اپنی جعلی ڈگری کی سزا سن کر اان کے” ہوکے”ہی نہیں رک رہے تھے ۔جب الیکشن الیکشن کھلینے کی اجازت ملی تو ان کی فوراً پیجارو بھی نکل آئی نعروں کی بازگشت میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ۔اس عزم کا برملا اظہار کر دیا کہ وہ اپنے مخالف کو لاکھوں سے شکست دیں گے۔سیکنڑوں لوٹوں کے ادھر ادھر لڑھکنے سے بھی یہی تاثر ابھرتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔کہنے کو پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کا ستر فی صد زراعت سے وابستہ ہے۔لیکن اگر دیکھا جائے تو پارلیمنٹ میں ان ستر فی صد کی کیا نمائندگی ہے۔کوئی جاگیر دار، وڈیرہ ،نواب ،ان ستر فی صد نمائندگی کیسے کر سکتے ہیں۔ جو زمینوں ،جاگیروں کے مالک تو ہیں۔
Wheat
مگر ایک کسان کے کیا مسئائل ہیں انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔وہ تو یہ تک نہیں جانتے ہو نگے کہ گندم گرمیوں میں بوئی جاتی ہے یا سردیوں میں ۔ایک مزدور کی نمائندگی ایک سرمایہ دار کیسے کر سکتا ہے۔ سرمایہ دار تو بہت دور کی بات ہے صنعتی اداروں میں یونین کے عہدیداروں کو ہی دیکھ لیں وہ محنت کشوں سے اٹھتے ہیں ۔ ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے سرمایہ داروں سے ”کام یاب مذاکرات ”کے بعد خود پراڈو میں پھرتے اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھتے ہیں۔پاکستان میں حقیقی جمہوریت تب تک نہیں آ سکتی جب تک پارلیمنٹ کے سب ایوانوں میں کسان اور مزدور کے پسینے کی بو، باس نہیں رچے گی۔جب ایک کسان اس ملک کا ستر فیصد ہیں۔
جب مزدور ہی کے دم سے اس وطن کی آن بان ہے تو پھر پارلیمنٹ میں صرف ان ہی نمائندگی کیوں جو ذیادہ سے ذیادہ پانچ فی صد ہیںبھوکے کی بات بھوکا ہی سمجھ سکتا ہے۔دو اور دو ،چار روٹیاں ہی ہوتی ہیں۔۔جب تک پارلیمنٹ میں حقیقی نمائندے نہیںآئیں گے۔حقیقی جمہوریت تب ہی آئے گی جب ایک گائوں کا کسان مولیاں ،گاجر ،آلو اکھاڑتا ہوا پارلیمنٹ میں پہنچے اور ان ”آکٹوپس”کو وہ کرکے کے دکھا دے جو یہ اقتدار پرکنڈلی مارے پینسٹھ برسوں سے اس لٹی پٹی عوام کے لئے نہیں کر سکے۔
مگر یہ سب دیوانے کی بڑ ہے۔ایک خواب ہے جس کو شرمندہ تعبیر ہونے کو نہ جانے کتنی صدیاں بیت جائیں ۔مگر ”چمن میں دیدہ ور پیدا” ہونے کو کوئی نہیں روک سکتا۔گیارہ مئی کے الیکشن کے بعد ایک نئے وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں ضرور منیر نیازی کے اس شعر کا حوالہ دیں گے۔ منیر اس ملک پہ آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے کہ حر کت تیز تر ہے سفر آہتہ آہستہ اس کے بعدملک کے پچیسویں وزیر اعظم کم وبیش وہی خطاب فرمائیں گے ۔جو اس ملک کے پہلے وزیر اعظم نے فرمایاتھا ۔صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہو سکتا ہے۔”پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔پاکستان کی لیڈر شپ مخلص،بے لوث اورخدمت گزار ہے۔پاکستان کے لوگ پر امن ہیں۔پاکستان کے لوگ جمہوریت کے شیدائی ہیں۔پاکستان زندگی کے ہر شعبے میںترقی چاہتا ہے۔
پاکستان کے لوگ اخلاقی اقدار پر یقین رکھتے ہیں۔پاکستان دنیا کے لوگوں میں امن اور خوشیوں کو ترقی دینے کا خواہش مند ہے۔پاکستان کے حکمران عوام کی ترقی اور کام یابی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔پاکستان لوگوں کے تعاون اور مددکے ساتھ اقتصادی اور سماجی شعبہ میں ملک کو مضبوط اور خوشحال بنانا چاہتا ہے۔پاکستان میں عوام اور حکومت جمہوریت کی جڑیںمضبوط کریں۔پاکستان کو صنعت ،سائنس اور ٹیکنالوجی میںان کے علم کی از حد ضرورت ہے۔ایک مستحکم پاکستان دنیا میں امن کی ضمانت ہے۔پاکستان ایشیا ء میں امن کو فروغ دے گا اور وہاں سے یہ دنیا کے دوسرے ملکوں تک پھیل جائے گا۔پاکستان ضرور ترقی کی راہوں پر ہو گا”۔
پچھلی حکومت کے اچھے یا برے کاموںمیں الجھنے،خالی خزانے کی دہائی دینے کی بجائے ”کچھ بھی نہ کہا کچھ کہہ بھی گئے ” کے مصداق منر نیازی کے ایک اور شعر سے کام چلایا جا سکتا ہے۔آخر کو جن کی آپ جگہ لے رہے ہو وہ بھی تو آپ ہی کے پانچ فی صد میں ہی شامل ہیں۔تو پھر ان کے رازوں سے پردہ کیا اٹھانا۔ ایک او ر دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا