تحریر : عابد علی یوسف زئی یوم آزادی پاکستان ہر سال14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیراعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔
پاکستان ایک جمہوری ریاست ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ ستر سال کے طویل مدت میں کوئی بھی حکمران آئینی مدت پوری نہ کر سکی۔ آئیے ذرا ماضی کی دریچوں میں جھانک کر پاکستان کو تاریخ کے آئینے میں دیکھتے ہیں اور پاکستانی اقتدار کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔
711ء میں اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے دور میں محمد بن قاسم برصغیر (موجودہ پاکستان و ہندوستان) کے خاصے حصے کو فتح کرتا ہے اور یوں برصغیر (موجودہ پاکستان) دنیا کی سب سے بڑی عرب ریاست کا ایک حصہ بن جاتا ہے، جس کا دار الحکومت دمشق، زبان عربی اور مذہب اسلام تھا۔ یہ علاقہ سیاسی، مذہبی اور ثقافتی طور پر عرب دنیا سے جڑ جاتا ہے۔ اس واقعہ نے برصغیر اور جنوبی ایشیا کی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
1947ء سے پہلے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش برطانوی کالونیاں تھیں اور برصغیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک کے دوران ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا۔ “پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ” اس تحریک کا مقبول عام نعرہ تھا۔ اس مطالبے کے تحت تحریک پاکستان وجود میں آئی۔ اس تحریک کی قیادت محمد علی جناح نے کی۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آیا۔
تقسیم برصغیر پاک و ہند کے دوران انگریزوں نے کچھ ایسے سقم چھوڑے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان میں 1948ء اور 1965ء میں کشمیر کے مسئلہ پر دو جنگوں کا سبب بن گئے۔
اس کے علاوہ چونکہ پاکستانی پنجاب میں بہنے والے تمام دریا بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہوکر آتے ہیں، لہذا پاکستان کو 1960ء میں انڈیا کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ کرنا پڑا، جس کے تحت پاکستان کو مشرقی دریاؤں، ستلج، بیاس اور راوی سے دستبردار ہونا پڑا۔ جبکہ دریائے سندھ، چناب اور جہلم پر پاکستان کا حق تسلیم کر لیا گیا۔ 1947ء سے لے کر 1948ء تک پاکستان کا ابتدائی دور تھا جس میں ملک کو بڑی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ بھارت نے پاکستان کے حصہ میں آنے والی رقم پاکستان کو ادا نہ کی۔ اس کے علاوہ صنعتی ڈھانچے کے نام پر پاکستان کے حصے میں گنتی کے چند کارخانے آئے اور مزید برآں کئی اندرونی و بیرونی مشکلات نے بھی پاکستان کو گھیرے رکھا۔ 1948ء میں قائد اعظم محمد علی جناح وفات پاگئے تو حکومت لیاقت علی خان کو سونپی گئی۔ 1951ء میں لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ 1951ء سے 1958ء تک کئی حکومتیں آئیں اور ختم ہو گئیں۔ 1956ء میں پاکستان میں پہلا آئین نافذ ہوا۔ اس کے باوجود سیاسی بحران کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1958ء میں پاکستان میں مارشل لا لگ گیا۔
پاکستان میں موجود تمام بڑے آبی ڈیم جنرل ایوب کے دور آمریت میں بنائے گئے۔ جنرل ایوب کے دور میں پاکستان میں ترقی تو ہوئی لیکن مشرقی پاکستان دور ہوتا گیا۔ 1963ء میں پاکستان کے دوسرے آئین کا نفاذ ہوا، مگر مشرقی پاکستان کے حالات آہستہ آہستہ بگڑتے گئے۔ ایوب خان عوامی احتجاج کی وجہ سے حکومت سے علیحدہ ہو گئے لیکن جاتے جاتے انہوں نے حکومت اپنے فوجی پیش رو جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دی۔ 1971ء کے عام انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ کی واضح کامیابی کے باوجود فوجی حکمران یحییٰ خان نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کو ترجیح دی۔ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علیحدگی پسندوں کو بھرپور مالی اور عسکری مدد فراہم کی جس کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1971ء میں سقوط ڈھاکہ ہوگیا اور مشرقی پاکستان ایک جداگانہ ملک بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ 1972ء سے لے کر 1977ء تک پاکستان میں پی پی پی کی حکومت تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے صدر اور بعد ازاں وزیر اعظم رہے۔ اس دور میں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے آئین پاکستان مرتب اور نافذ العمل کیا گیا۔ اسی دور میں پاکستان میں صنعتوں اور اداروں کو قومیا لیا گیا۔ اس دور کے آخر میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کے نتیجے میں 1977ء میں دوبارہ مارشل لا لگ گیا۔
اگلا دور 1977ء تا 1988ء مارشل لا کا تھا۔ اس دور میں پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق تھے۔ افغانستان میں جنگ کی وجہ سے پاکستان کو بہت امداد ملی۔ اسی دور میں 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات ہوئے اور جونیجو حکومت بنی جسے 1988ء میں ضیاء الحق نے برطرف کر دیا۔ 1988ء میں صدر مملکت کا طیارہ گر گیا اور ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ پاکستان کی اعلی عسکری قیادت کی اکثریت زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ پاکستان میں پھر سے جمہوریت کا آغاز ہو گیا۔
1988ء میں انتخابات ہوئے اور بینظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ کچھ عرصہ بعد صدر غلام اسحاق خان نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1990ء میں نواز شریف کی قیادت میں آئی جے آئی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ 1993ء میں یہ حکومت بھی برطرف ہو گئی۔
اس کے بعد پاکستان کے نئے صدر فاروق لغاری تھے۔ اگلے انتخابات 1993ء میں ہوئے اور ان میں دوبارہ پی پی پی اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ صدر فاروق لغاری کے حکم پر یہ حکومت بھی بر طرف ہو گئی۔ 1997ء میں انتخابات کے بعد دوبارہ نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن اور اس کی حلیف جماعتیں اقتدار میں آئیں۔ اس حکومت کے آخری وقت میں سیاسی اور فوجی حلقوں میں کشیدگی بڑھ گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1999ء میں دوبارہ فوجی حکومت آ گئی۔ صدر مملکت پرویز مشرف بنے اور 2001ء میں ہونے والے انتخابات کے بعد وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی بنے۔
2004ء میں جنرل مشرف نے شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ مختصر عرصہ کے لیے چوہدری شجاعت حسین نے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سرانجام دیں اور شوکت عزیز کے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے کے بعد وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو گئے۔ شوکت عزیز قومی اسمبلی کی مدت 15 نومبر 2007ء کو ختم ہونے کے بعد مستعفی ہو گئے۔ 16 نومبر 2007ء کو سینٹ کے چیرمین جناب میاں محمد سومرو نے عبوری وزیراعظم کا حلف اٹھایا۔
فروری 2008ء میں الیکشن کے بعد پی پی پی پی نے جناب یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم نامزد کیا، جنہوں نے مسلم لیگ (ن)، اے این پی کی حمایت سے اعتماد کا ووٹ حاصل کیا۔ 22 جون 2012ء کو یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کے بعد راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم بنے۔ مئی 2013ء میں عام انتحابات ہوئے جس میں پاکستان مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت کے طور پر ابھری۔ یوں نوازشریف پاکستان کے تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہوئے۔ جولائی 2017 ء میں ایک بار پھر نواز شریف کو کرپشن کیسز میں نااہل کرکے بر طرف کر دیا گیا اور شاہد خاقان عباسی نے عبوری وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔
ستر سال میں نہ کسی حکمران نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور نہ ہی ملک و قوم کو کچھ دیا۔ وطن عزیز بیرونی قرضوں تلے دب چکا ہے۔ بیرونی قرضوں کا حجم 80 کھرب سے تجاوز کر چکا ہے اور انتہائی قیمتی اثاثوں کو گروی رکھا جاچکا ہے۔ آزادی کے ستر سال پوری ہونے پر آئیے عہد کریں کہ وطن عزیز کو ہر قسم کے کرپشن سے پاک کرکے اسلامی پاکستان بنائیں گے اور ہر ایسی سیاسی جماعت کا بائیکاٹ کریںجو اسلام اور پاکستان کا دشمن ہو۔