تحریر : حاجی زاہد حسین خان شیخ ابو الحسن خراسانی ولی کامل تھے انکا شہرہ دور دور تک تھا۔ ایک دن کہیں ددور سے انکا مرید انہیں ملنے انکے گھر آیا وہ گھر پر موجود نہ تھے انکی زوجہ محترمہ سے پوچھا گیا شیخ کہاں ہیں۔ زوجہ نے جواب دیا کونسا شیخ کیسا شیخ ۔ میرا میاں تو جنگل کی طرف گیا ہے۔ مرید جنگل کی طرف چل پڑا تھوڑی دور تک گیا تھا کہ کیا دیکھتا ہے ابو الحسن شیر پر سواری کرتے ہوئے اسکی طرف آرہے ہیں۔ ملاقات ہوئی راز و نیاز ہوئے ۔ مرید کے واپس جانے کے بعد ابو الحسن بھی گھر پہنچے۔ بیوی نے طنز اً پوچھا تم شیخ کب سے بنے ہو۔ تمہارا ایک مرید پوچھتا پھر رہا تھا انہوں نے جواب دیا اری کمبخت تمہیں میری ولایت پر کیوں شک ہے۔
بیوی نے کہا میں آپکی ولائیت کو تب مانوں گی جب آپ ہوا میں اڑ کر دیکھائیں گے دوسرے دن ابو الحسن اڑتے ہوئے اپنے گھر اور محلے سے گزر ے سب لوگوں نے نظارا کیا ۔رات حضرت گھر آئے بیوی نے آتے ہی کہا آج ہمارے گھر کے اوپر سے ایک ولی کامل ہوا میں اڑتا ہوا گزرا ہے۔ ابو الحسن نے جواب دیا۔ ہاں وہ میں ہی تھا۔ بیوی نے کہا تب ہی تو تم ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔ ولی کامل تو سیدھے اڑا کرتے ہیں۔ میں نہ مانوں والی بات تھی۔ قارئین ایسے ہی طریقہ واردات گزشتہ پچھہتر سالوں میں ہم اہل پاکستان والوں کا بھی رہا۔ ہم میں بھی بڑے بڑے سیاسی روحانی فوجی نام ور ولائیت کے حامل حکمران گزرے مگر کیا مجال ہم نے انکی قدر کی ہو تسلیم کیا ہو ۔ جنرل ایوب جیسے شیر دل حکمران نے اس سیاسی انتشار زدہ پاکستان کو کامیاب حکمت عملی سے اپنے پائوں پر کھڑا کیا زرعی صنعتی ملک بنایا فوج کو منظم کیا اسے ایک مضبوط ادارہ بنایا۔ اور دنیا بھر میں اس ابھرتے ہوئے پاکستان کوروشناس کرایا۔ مگر ہم نے ہمارے معاشرے نے اسے چار آنے چینی مہنگی کرنے پر اسے کتا بنا کر سڑکوں پر ذلیل کروایا۔ اسکی ساری محنت کو ضائع کیا جا گھر بیٹھایا۔ اس کی جگہ دوسرا فوجی حکمران جنرل یحییٰ آیا وہ ایک خالصتا فوجی حکمران تھا۔ اس نے اپنی محدود مدت میں کچھ کیا نہ کیا مگر ملک میں ایک شفاف ترین الیکشن کروایا۔ مگر اسے قوم نے بھی اپنی چالیس سالہ ملکی خدمات پر پانی پھیر کر ایک گمنام زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے جانشین ذولفقار علی بھٹو ملک کے حکمران بنے انہوں نے بھی بیرون دنیا میں اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ پہلی اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی۔ اسلامی دنیا کی سرپرستی کی ملک کو ایک جامعہ متفقہ آئین دیا۔
عشروں سے ملکی انتشار کا باعث رہنے والے قادیانیت مسئلے کو غیر مسلم قرار دیکر اندرون خانہ ایک نام کمایا مگر بدقسمتی سے ہمارے حسد و بغض نے اقتدار کی رسہ کشی نے انہیں بھی چند ناکردہ گناہوں کے عدالتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھایا سولی لٹکایا۔ پھر ہمارا اقتدار جنرل ضیا ء الحق کے ہاتھ آیا۔ وہ بھی ایک روائتی جرنیل تھے۔ انہوںنے بھی ایک سپر پاور کو عبرت کا نشان بنایا۔ اسلامیزیشن کی طرف قدم بڑھایا۔ اور بیرون دنیا خصوصا اسلامی دنیا میں اپنا اور ملک کا نام کمایا۔ پاکستا ن میں ایک مضبوط جوہری قوت کی تکمیل کر کے اسے مسلم امہ کا قائد بنایا۔ مگر اپنوں کی سازشوں اور دشمنان اسلام و پاکستان کی عداوتوں نے پھر کام کر دیکھایا۔ انکو بھی ہوائوں فضائوں میں نشانہ بنا دیا۔ قارئین بعد میں آنے والی ہماری جمہوری حکومتوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی قیادتوں نے کسی قدر ملک کا نظام چلایا۔ اپنی پاکستانی قیادتوں کو بیرون ملک خوب متعارف کرایا۔ اپنا امیج بنایا۔ خصوصا اٹھائیس مئی کے ایٹمی دھماکوں نے نواز شریف کے جرات مندانہ فیصلے نے جہاں ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔ وہاں اپنے پاکستان کو اسلامی دنیا کی قیادتوں کا حامل بھی بنا دیا۔ قارئین خدانخواستہ اگر میاں نواز شریف اس وقت بیرونی دبائو میں آجاتے ۔ ان کا کہا مان لیتے تو اربو ں ڈالر کماتے بیرونی آقائوں کے منظور نظر بن جاتے۔
اپنے اقتدار کو دوام بخشتے ۔ اور بیرون ملک بیٹھ کر نسل در نسل کماتے کھاتے ۔ انہیں آج کسی پانامہ اقامہ کا شکار نہ ہونا پڑتا۔ مگر آج ہمارا پاکستان عراق لیبیاء اور شام کا منظر پیش کر رہا ہوتا۔ لیکن انہوں نے کسی دبائو یا لالچ کو ٹھکرا کر ملکی مفاد میں ایک جرات مندانہ فیصلہ کرنے اپنے ملک کو اور خود اپنی قیادت کو دنیا بھر میں متعارف کرایا۔ ملک کی عظیم سیاسی اور مدبر شخصیت بے نظیر بھٹو کو بھی ہم سے چھین لیا گیا اور پھر بین الاقوامی طور پر مصروف اور ملکی سطح کی مدبر شخصیت نوازشریف نے تیسری بار اقتدار میں آکر ملک کو تعمیر و ترقی کے شعبے میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لا کھڑا کیا۔ کوئی مانے نہ مانے ملکی اکثریت نے نوازشریف حکومت کے شاہراہوں موٹر ویز ڈیمز اور میٹرو جیسے جدید مواصلاتی نظام کا زمین پر نظر آنے والے تکمیل کو پہنچنے والے نسل در نسل چلنے والے منصوبوں کو ملکی ترقی کے لئے ایک سنگ میل کے طور پر جانا پہچانا ۔ اوپر سے بدترین لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ گوادر بندرگاہ کی تکمیل اور سی پیک جیسے عظیم منصوبے کا حصول انکا یہ عظیم کارنامے کے طور پر جانا پہچانا جائیگا۔ چائنہ روس، اور یورپ جیسے ممالک میں انکی اپنی ایک پہچان تھی اب بھی ہے۔ اور رہے گی۔ اور خصوصا عرب دنیا میں انکا وقار قدرومنزلت پاکستان کے عظیم قومی لیڈر کے طور پر تسلیم شدہ شخصیت کبھی بھی مسخ نہیں کی جا سکتی مگر ہماری بدقسمتی بدبختی یا ہمارے پاکستان کی بدقسمتی انہیں ایک چور ڈاکو ۔ اقامہ پانامہ کے شکنجے میں جھکڑ کر عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کر دیا گیا ہے۔ جس طرح ماضی میں ایک معروف دیانتدار شخصیت چوہدری ظہور مرحوم کو بھینس کا چور بنا کر ملکی سیاست سے آئوٹ کر دیا گیا تھا۔
قارئین عجیب تو یہ ہے کہ ان کے مد مقابل میں جناب زراری صاحب اور عمران خان کے دامن میں پانچ پانچ سال اقتدار میں رہنے کے باوجود ملکی ترقی میں اور خدمت کا کوئی قابل قدر کارنامہ نہیں نظر آتا۔ سوائے شور غل انتشار اور وقت گزاری کے اور نہ ہی بین الاقوامی دنیا میں سوائے ایک دو ممالک میں ان کی پہچان کے وہ بھی قومی یا عالمی لیڈر کی حیثیت سے نہیں آج نہیں تو کل یہ حقائق ہر شخص کی زبان ز دعام ہونگے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ قارئین موجودہ عدالتی اور حکومتی کشیدگی ۔ کسی بھی صورت ملکی مفاد میں نہیں اہلیت نا اہلیت یہ فیصلے آئندہ آنے والے الیکشن میں عوامی عدالت پہ چھوڑ دیئے جائیں۔ جہاں تک ملکی اعلیٰ عدالتی فیصلوں پر لب کشاہ ہونا ملک کے؛ ہر شہری کا حق ہے ۔ ہماری عدالتیں اور دوسرے ملکی ادارے محترم و مکرم ضرور ہیں۔ مگر ہمارے منصف بھی انسان ہیں ان سے بھی غلطی کا امکان ہو سکتاہے۔ کسی بھی اعلیٰ عدالت کے فیصلوں پر دبے لفظوں احتجاج جرم ہوتا اگر حکمرانوں کے سامنے لب کشاء ہونا جرم ہوتا تو ہین ہوتا تو خلیفہ الثانی عمر فاروق کی عوامی عدالت میں ایک بدو کھڑا ہو کر نہ پوچھتا اے امیر المومنین آپ نے اتنا بڑا کرتہ کیوں کیسے بنوایا۔ عباسی خلیفہ المنصور کے سامنے امام ابو حنیفہ امام مالک جیسے نابغہ روزگار شخصیات ان کے فیصلوں پر احتجاج نہ کرتیں۔ خلیفہ مامون الرشید اور اس کے بیٹے معتصم باللہ کی عظیم عباسی خلافتوں کو جو ساری کی ساری خلق قرآن پر ایما ن لا چکی تھیں۔ امام احمد بن حنبل انکے فیصلوں پر احتجاج نہ کرتے کوڑے نہ کھاتے اور آخر کار انہیں اپنے فیصلے بدلنے پر مجبور نہ کرتے۔ اس لئے خدا کے لئے عدالتی فیصلوں پر ہر کسی کے لب کشائی کرنے کو اصلاحی تنقید کرنے کو توہین کے ذمرے میں نہ لایا جائے۔
چھوٹے چھوٹے معاملوں کے لئے ملکی اور اپنی بین الاقوامی پہچان کی شخصیات کو ماضی کی طرح انہیں کھڈے لائن نہ لگایا جائے۔ سیاست سے اور دیش سے نکالا نہ جائے گھروں میں نہ بیٹھایا جائے اگر ہمارا یہی طرز عمل جاری رہا تو خدا کی قسم ہمارے پاس قیادت کا فقدان ہو گا۔ اور ہم ملکی قیادت سے محروم ہی نہیں امت مسلمہ کی قیادت سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ ہمارے پاس کوئی متبادل قیادت تا وقت موجود نہیں۔ ہماری اس تو تو میں میں میں بین الاقوامی معائدات کھٹائی میں اور جاری میگا پروجیکٹ بند ہو جائیں گے۔ ملکی بھلائی اسی میں ہے کہ ہمارے سارے ادارے اپنی حدو د و قیود میں کام کریں۔ سیاستدانوں کی لڑائیاں پارلیمنٹ میں رہنے دیں۔ آنے والے متوقع الیکشن کے بعد یہ سب شیر و شکر ہو جائیں گے۔ کیا ہم اغیار سے سبق انہیں سیکھ سکتے ۔ جو اپنے لیڈروں حکمرانوں کو ان کی ریٹائرڈمنٹ کے بعد بھی ہماری طرح ذلیل و خوار اور رسوا نہیں بلکہ تا حیات اپنی سر آنکھوں پر لا بیٹھاتے ہیں۔ چمنی کارٹر ، بش ، ہویا، اوبامہ ٹونی بلیر ہو یا مارگریٹ تھچپرا اور تو اور ہمارا روائتی ہمسایہ دشمن بھی ڈسیائی ہو یا دیو گوڑا واچپائی یا عبدالسلام اپنے ان ریٹائرڈ حکمرانوں سیاستدانوں کو عزت و توقیر سے دیکھتے ہیں تاکہ ہمارے طرح ذلیل وخوار بنا کر جگ ہنسائی کا باعث بنتے ہیں۔ غلطیاں سب کرتے ہیں۔ یہ تو انسانی فطرت بھی ہے اور جبلت بھی ۔ قارئین اقامہ رکھنا بیرون ملک کارو بار کرنا چند فلیٹ رکھنا اولادوں کا سیٹ اپ بنانا۔ ملک توڑنے گروی رکھنے اور دشمنوں کے آلہ کار بننے سے بڑا جرم نہیں ۔ جس کی سزا اپنے قومی قیادتوں کو مستند بین الاقوامی شخصیات کو سیاست سے قیادت سے اور اپنے ملک سے ہی آئوٹ کر دیا جائے جبکے اصل غداران وطن ملک کو نقصان پہنچانے والے یہاں وہاں کھلے عام دندناتے پھر رہے ہوں باشعور قومیں اپنے محسنوں کی سابقہ قیادتوکی چھوٹی چھوٹی غلطیاں درگزر کر کے انسے رہنمائی اور ان کے تجربات سے فائدہ اٹھاتی ہیں اللہ ہمیں صحیح معنوں میں وطن و ملت کی خدمت کرنے کی توفیق دے آمین پاکستان پائندہ باد
Haji Zahid Hussain
تحریر : حاجی زاہد حسین خان ممبرآل پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹ hajizahid.palandri@gmail.com