پاکستانی حکمراں طالبان کے خلاف اقدامات سے گریزاں تھے، برطانوی اخبار

Peshawar Incident

Peshawar Incident

کراچی (جیوڈیسک) برطانوی جریدہ ”اکنامسٹ“ سانحہ پشاور کے بعد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج اور حکومت کے اقدامات پر اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھتا ہے کہ فوج ملک کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔سانحہ پشاور نے پوری پاکستانی قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔ طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں نواز شریف اور عمران خان سمیت دیگر معروف سیاست دانوں کو اسکول قتل عام نے ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا کہ عسکریت پسندی پاکستان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔اچھے اور برے طالبان کے بارے وسیع پیمانے پر ایک غلط فہمی پھیلائی گئی۔فوج کا موقف درست ثابت ہوا کہ طالبان پاکستان کے ساتھ مخلص نہیں۔

جنرل شریف اور ان کے ساتھی افسران دلیل دیتے ہیں کہ اسکول قتل عام نے نہ صرف طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں سیاسی طبقے کو بلکہ ملک کی کثیر آبادی کو یہ حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کردیا کہ اسلامی عسکریت پسند پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ ہیں۔ 2013 ءمیں جب سے جنرل راحیل شریف آرمی چیف بنے وہ اسی وقت سے عسکریت پسندوں پر آہنی ہاتھ ڈالنا چاہتے تھے اور ان انتہا پسندوں کو کچلنا چاہتے تھے۔ لیکن وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ساتھ دیگر معروف سیاستدان جن میں خاص طور پر عمران خان شامل ہیں وہ طالبان کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریزاں تھے۔

وہ تشویش میں مبتلا تھے کہ اس فوجی مہم کی عوام حمایت نہیں کریں گے۔عسکریت پسندوں کے خطرے کی وسیع پیمانے پر مقبول غلط فہمی یہ ہے کہ نام نہاد اچھے طالبان کی حمایت پاکستان کے طاقتور حلقے کرتے ہیں ۔ نواز شریف اورعمران خان تحریک طالبان کے ساتھ امن مذاکرات پر زور دیتے تھے ۔جرنیلوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی مذاکرات کے عمل کو دیکھا تاہم فوج اپنے موقف میں درست ثابت ہوئی کی تحریک طالبان پاکستان مخلص نہیں تھی۔فوجی جرنیل کہتے ہیں کہ پشاور سانحے نے اب عسکریت پسندی کے خلاف جنگ کے پیچھے قوم کو لا کھڑا کیا ہے۔طالبان کے خلاف کارروائی کے لئے عام پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہوچکا ہے۔

فوج نے واضح کیا کہ کوئی برے اچھے طالبان میں فرق نہیں۔ جنرل راحیل شریف نے لندن اور واشنگٹن کے حالیہ دوروں میں کہا کہ قبائلی پٹی میں ان گنت کارروائیوں سے عسکریت پسندوں کے ٹریننگ کیمپ تباہ کردیے۔ پاکستانی ریاست جہادی گروپوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کرچکی ہے ۔ جماعت الدعوہ کے سیاسی ونگ پرپابندی کے پاکستانی حکومت کے فیصلے نے کئی حلقوں کو حیران کردیا۔جریدہ لکھتا ہے کہ یہ بالکل مناسب تھا کہ پاکستانی رہنماوں کو وسط جنوری کی صبح پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے شاگردوں کے استقبال کے لئے ذاتی طور پر ہونا چاہئے تھا۔

اسکول کے دروازے پر انتظار کرنے والے منتخب وزیر اعظم نواز شریف نہیں اور نہ ہی ملک کا صدر تھا بلکہ وزیر اعظم کے ہم نام فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف تھے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کس طرح فوج دہشتگردی کے خلاف جنگ سے نبرد آزما ہے۔گزشتہ موسم گرما میں جنرل شریف نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کی۔ قومی ایکشن پلان اب متشدد گروپوں کے فنڈز کی فراہمی ،نفرت انگیز تقریر کو روک پائے گا اور دینی مدارس کو کنٹرول کرے گا۔صدر اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد پاکستان کے ساتھ افغانستان کے کشیدہ تعلقات میں ڈرامائی طور پر بہتری آئی ہے۔ . فوج نے حکومتی اختیارات حاصل کرلیے حتیٰ کہ عدلیہ پر بھی۔پشاور سانحے کے بعد نواز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات پر سزائے موت پر عمل داری پر پابندی کو ختم کردیا۔