تحریر : عبدالرزاق چودھری حسب معمول صبح سویرے اخبار کا مطالعہ شروع کیا تو یہ خوش آئند خبر آنکھوں کی زینت بنی کہ پاکستان او ر روس کے سرکاری وفود کے مابین مختلف اقتصادی اور دفاعی نوعیت کے معاہدوں پر دستخط ہوے ہیں جن سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری کے آثار نمودار ہو ں گے ۔روسی کمپنیاں مختلف منصوبوں میں سرمایہ کاری کریں گی اور حکومت پاکستان ان کے سرمائے کے تحفظ کی ضمانت دے گی۔منشیات کے خاتمے کے لیے روس پاکستان کو تین درجن ہیلی کاپٹر دینے کے علاوہ مشترکہ بحری مشقوں میں بھی حصہ لے گا ۔یاد رہے ان ہیلی کاپٹرز کی خریداری کے لیے پاکستان گزشتہ ایک سال سے کوشش کر رہا تھا اور اسی سلسلہ میں جب سپہ سالار پاک آرمی جنرل راحیل شریف نے روس کا دورہ کیا تھا تو ہیلی کاپٹرز کی خریداری حتمی مراحل میں داخل ہوئی تھی۔
مذید براں روس پانچ ورکنگ گروپس کے تحت توانائی،صنعت، خوراک و زراعت،تجارت اور اقتصادیات کے میدان میں بھی بھرپور مدد فراہم کرے گا۔جبکہ پاکستان سٹیل ملز کے چھبیس فیصد حصص روس کو فروخت کرے گا۔روسی کمپنیاں ایل این جی کی سپلائی کا کام کرنے کے علاوہ تیل ،گیس اور ایل پی جی کی تلاش کا عمل بھی جاری رکھیں گی۔ روس توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے بھی پاکستان کی مدد کرے گا اور اس ضمن میں تربیلا اور داسو منصوبوں کی تکمیل میں بھی پاکستان کا ہاتھ بٹائے گا۔علاوہ ازیں اس خبر سے بھی آگاہی ہوئی کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کو پاکستان کے دورے کی دعوت بھی دی ہے۔درحقیقت پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک امریکی بلاک کا حصہ رہا ہے خواہ وہ سیٹو،سینٹو معاہدہ ہو افغان وار ہو یا دہشت گردی کے خلاف جنگ ،پاکستان ہمیشہ امریکی ٹیم کا فرنٹ فٹ پر کھیلنے والا ملک رہا ہے۔
Friendship
پاکستان اور روس کے درمیان ہونے والے حالیہ معاہدوں کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین جنم لینے والی پر اعتماد دوستانہ فضا اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کے افق پر نہایت برق رفتاری سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ عالمی سطح پر دوستوں اور دشمنوں کی نئی فہرست مرتب ہو رہی ہے ۔ ہر ملک اپنے ذاتی مفادات کے پیش نظر نئے دوستوں کی تلاش میں ہے۔
اسی تناظر میں پاکستان ایک عرصہ سے روس سے بہتر تعلقات کا خواہشمند تھا لیکن پاکستان اپنے اس مقصد کو اک مدت تک حاصل نہ کر سکا اور اس کی غالب وجہ یہ تھی کہ بھارت اور روس کے تعلقات کی نوعیت مثالی تھی اور یوں بھارت کے روسی حکومت سے تعلقات مضبوط بنیادوں پر استوار ہونے کے علاہ روسی اسٹیبلشمینٹ میں بھی اثرورسوخ دیدنی تھا۔لیکن اب عالمی سطح پر کروٹ بدلتے حالات پاکستان اور روس کی قربت کا باعث بن رہے ہیں امریکہ بھارت کے تعلقات بڑی تیزی سے فروغ پذیر ہیں اور بھارت کے دوستوں کی فہرست میں اول ترجیح امریکہ ہے چنانچہ بدلتے ہوے عالمی حالات پاکستان اور روس کو قریب لانے میں مدد گار ثابت ہو رہے ہیں۔
البتہ میری دانست میں پاکستان کو اقتصادی اور دفاعی میدان میں روس سے معاہدات کرتے وقت اس امکان کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ معاہدے بھارت کی آنکھوں میں ہمیشہ کھٹکتے رہیں گے اور وہ حتی الوسع کوشش کرے گا یہ معاہدات پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکیں اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں تک ممکن ہو سکا وہ روسی اسٹیبلشمینٹ میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا اور ان معاہدات پر عمل درآرمد میں رخنہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔
Exam
اس موقع پر پاکستانی حکمرانوں کا امتحان ہو گا کہ وہ کس طرح سیاسی بصیرت اور دانشمندی سے ان معاہدات کو ان کی اصل روح کے مطابق پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور بھارت کے اس وار کو غیر موثر کرتے ہیں کیونکہ یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ موجودہ حالات میں روس کا ا قتصادی اور دفاعی شعبوں میں پاکستان کی معاونت کرنا نہ صرف پاکستان کی ہچکولے کھاتی معاشی کشتی کے لیے سہارے کا موجب ہو گابلکہ پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے نقطہ نظر کے حوالے سے بھی سود مند ثابت ہو گا۔روس ماضی میں بھی اقتصادی میدان میں پاکستان کی مدد کر چکا ہے اور اس کے تعاون سے تعمیر ادارے عرصہ دراز تک پاکستان کی معیشت میں اپنا بھرپور حصہ ڈالتے رہے ہیں لیکن پاکستان کے امریکہ کی جانب جھکاو کو مد نظر رکھتے ہوے اور بالخصوص افغانستان کے معاملے پر روس سے تعلقات میں سر مہری کا عنصر غالب تھا۔
اب دنیا کے نقشہ پر رونما ہوتی ہوئی غیر معمولی تبدیلیوں کی روشنی میں پاک روس تعلقات اک نیا موڑ اختیار کر چکے ہیں۔سرد مہری والہانہ پن میں بدل رہی ہے۔ باہمی اعتماد کی فضا فروغ پا رہی ہے ایک دوسرے سے تعاون کے دروازے کھل چکے ہیں دونوں طرف کی سیاسی اور عسکری قیادت تعلقات کو از سرے نو تعمیر کرنے کے لیے پر عزم ہے۔پاکستانی حکمرانوں کو اس سنہری موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے اور روس سے مضبوط اور دیرپا نوعیت کے تعلقات کو مستقل بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے جامع اور مربوط پالیسی وضع کرنی چاہیے اور اس ضمن میں معمولی سی بھی لغزش نہیں دہرانی چاہیے۔
Successes
خوش آئند بات یہ ہے کہ ان دنوں سفارتی سطح پر پاکستان بڑی کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملٹری اور حکومت دونوں باہمی تعاون سے اور نہایت دانشمندی سے عالمی سطح پر ملکی مثبت تشخص اجاگر کرنے میں کوشاں ہیں ۔ایک طرف آرمی چیف جنرل راحیل شریف امریکہ کے دورے پر ہیں وہ امریکی حکام سے ملکی سلامتی کے اموراور افغانستان کے مسلہ پر کھل کر اپنا موقف بیان کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ ہندوستان کی پاکستان میں جاری مذموم کاروائیوں کا پردہ چا ک کرنے میں بھی مصروف عمل ہیں۔ جنرل راحیل شریف کے کامیاب دورہ امریکہ اور ان کو ملنے والی پذیرائی اس بات کی گواہ ہے کہ امریکہ کی نظر میں پاک فوج کی اہمیت کس قدر بلند ہے۔
پاکستان کا امریکہ اور روس سے دوستی کی خواہش کا بیک وقت ظہور پذیر ہونا ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان عالمی افق پر غیر جانبدار کردار ادا کرنے کا متمنی ہے اور وہ عالمی طاقتوں سے بغیر کسی تفریق کے اچھے تعلقات کا طالب ہے ۔اگر پاکستان اسی طرح عالمی سطح پر اپنے تشخص کو بہترین انداز میں پیش کرتا رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہندوستان کا عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف منفی پراپیگنڈہ اپنی موت آپ مر جائے گا اور پاکستان عالمی دنیا میں پر اعتماد فضا قائم کرنے میں کامیاب و کامران ٹھہرے گا۔یاد رہے کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد پاکستان کے لیے بہت گھمبیر مسائل جنم لے سکتے ہیں اس تناظر میں بھی پاکستان اور روس کے تعلقات کا بہتر ہونا پاکستان کے عین مفاد میں ہے۔