تحریر: سید انور محمود بنگلادیش کے مرحوم صدر ضیاء الرحمان نے 1980 کے قریب جنوبی ایشیائی ممالک کے آپس کےتعلق کے حوالے سے ایک علاقائی تنظیم کا تصور پیش کیا تھا۔ جنوبی ایشیا کے سات ممالک کے سربراہان پہلی بار اپریل 1981 میں کولمبو میں اکٹھے ہوئے اور چار سال بعد ڈھاکا میں دو روزہ اجلاس جو 7اور 8 دسمبر 1985 کو ہوا تھا جنوبی ایشیائی ممالک نے سارک تنظیم کی بنیاد رکھی۔ سارک کی تشکیل کے وقت اس کے سات ارکان تھے، 2007 میں نئی دہلی میں ہونے والی کانفرنس کے دوران افغانستان کو بھی ممبرشپ دی گئی جس کے بعد اس کے ممبر ممالک کی تعداد آٹھ ہو گئی۔
سارک کے ممبر ممالک میں بھارت، پاکستان، بنگلادیش، سری لنکا، بھوٹان، نیپال، مالدیپ اور افغانستان شامل ہیں۔ جبکہ آسٹریلیا، چین، یورپی یونین، ایران، جاپان، ماریشش، میانمار، جنوبی کوریا اور امریکا کو مبصر کا درجہ دیا گیا ہے۔سارک بنانے کا مقصد جنوبی ایشیائی ممالک کے آپس کےتعلق میں مضبوطی، علاقے میں ترقی اور خوشحالی اور امن کےلیے کام کرنا تھا، جبکہ اسی تنظیم کو جنوبی ایشیا کے خطے کی ثقافت و تہذیب کو فروغ دینے کے لیے بھی استعمال کرنا تھا، لیکن بدقسمتی سے آج تک سارک تنظیم خطے میں کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک طرف تو اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیم قائم ہوئی تو دوسری طرف علاقائی تنظیموں کے قیام کا رجحان بھی بڑھا، یورپی یونین، او آئی سی، عرب لیگ، خلیج تعاون کونسل، اکنامک کمیونٹی آف افریقہ، اوپیک اور کامن ویلتھ وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ ان تنظیموں میں اتحاد زیادہ تر مشترکہ دفاع اور اقتصادی تعاون کی بنیاد پر بنے۔ یورپ میں علاقائی تنظیموں اور اتحادوں کو کامیابی سے چلتے ہوئے دیکھ کر جنوبی ایشیا میں بھی اس طرح کے اتحاد کے قیام کی خواہش پید اہوئی، سارک نے اسی ہی خواہش کے بطن سے جنم لیا تھا۔ سارک کے وجود میں آنے کے بعد سے 2014 تک اس کے اٹھارہ اجلاس ہوچکے ہیں جب کہ آئندہ ماہ نومبر میں اسلام آباد میں سارک کا انیسواں اجلاس منعقد ہونا تھا جو بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے فی الحال ملتوی کردیا گیا ہے۔ سارک کا اٹھارواں اجلاس نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں 2014 میں ہوا تھا۔ اجلاس کے اختتام پر ایک 36 نکاتی مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا تھا، جو جنوبی ایشیا کے عوام کے دل کی آواز تھا، اس میں اقتصادی یونین، ترقیاتی فنڈز اور فوڈ بینک کے قیام کی خوش خبری سنائی گئیں تھیں۔ رکن ممالک کے درمیان زمینی رابطوں کے ذریعے تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے کئی مشترکہ منصوبوں کی بھی بات کی گئی تھی۔ 36 نکاتی مشترکہ اعلامیہ کے سارے نکات بھی انتہائی پرکشش تھے، مگر سارک ایک کمزور تنظیم ہونے کی وجہ سے جس کی پوری ذمہ داری صرف اور صرف بھارت پرہے ان نکات پر عمل در آمد کروانے میں بےبس رہی۔
India
سارک تنظیم کو سب سے زیادہ نقصان بھارت کی وجہ سے ہورہا ہے، سارک تنظیم کے ممبران میں بھارت زمینی اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے، اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو علاقے کا تھانیدار سمجھتا ہے۔ سارک ممالک بھارت کے اس رویے سے عاجز آچکے ہیں، مگر پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی ہمت نہیں ہورہی ہے۔ وہ نیپال، سری لنکا، بھوٹان، بنگلا دیش، پاکستان اور افغانستان کے سیاسی، سماجی اور دفاعی امور میں مداخلت کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ کئی سارک ممالک میں جہاں اندرونی طورپر حالات پر امن نہیں ہیں واضح طورپر بھارت ملوث ہے۔ بھارت کے اسی رویئے کی وجہ سے گذشتہ اکتیس سال میں کبھی بھی سارک تنظیم اپنے مقاصد حاصل نہ کرپائی۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اختلافات تو سمجھ میں آتے ہیں کہ کشمیر کا تنازعہ موجود ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ بنگلہ دیش سے بھی ہندوستان کو یہی شکایت ہے کہ اس کی شمال مشرقی ریاستوں کے شورش پسند بنگلہ دیش میں اپنے تربیت کیمپ بنائے بیٹھے ہیں۔ نیپال اور ہندوستان کے درمیان بھی اسی قسم کے اختلافات موجود ہیں اور ماضی میں دونوں ایک دوسرے کے شورش پسندوں کی ہمت افزائی کا ایک دوسرے پر الزام عائد کرتے رہے ہیں۔
بھارت ایک عرصے تک سری لنکا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا رہا ہے، پاکستان میں اپنی خفیہ ایجنسی ‘‘را’’ کے زریعے ایک عرصے سے اور اب بھی بلوچستان اور کراچی کے امن کو تباہ کرتا رہا ہے ۔اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے ظلم ستم کو چھپانے کے لیے گجرات کے قصائی بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے بھارت کی یوم آزادی پر تقریر کرتے ہوئے بلوچستان میں عوام پر ہونے والے ظلم کا جھوٹا الزام لگایا، جس کا جواب خود بلوچستان کے عوام نے مودی کے خلاف بھرپور مظاہرئے کرکے دیا۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وہ سارک کے فورم پر کشمیر کا نام تک سننا پسند نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف سارک اجلاس میں خطاب کرتے ہوئےکشمیر کا معاملہ گول کرگئے۔ سارک ایک علاقائی تنظیم ہے، اسے خطے میں پائے جانے والے تنازعات حل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے، کیوں کہ خطے کے لوگ اپنے معاملے کو زیادہ بہتر طورپر سمجھتے ہیں۔ آٹھ جولائی کے بعدسے اب تک جو ظلم مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے اس کے بعد پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کےلیے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ بھارتی مظالم پر خاموش رہیں لہذا انہوں نے 22 ستمبر کواقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا پردہ چاک کردیا۔
Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بعد گجرات کا قصائی نریندرمودی، پوری بھارتی سرکار اور بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف بھرپور اشتعال انگیزی میں لگے ہوئے ہیں۔ پوری دنیا اور خود اس تنظیم کے رکن ممالک کے عوام بھارت کی اشتعال انگیزی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس تنظیم میں شامل تمام ممالک ثقافتی، تاریخی اور اقتصادی اعتبار سے ایک دوسرے سے جتنے قریب ہیں اتنی قربت کسی بھی اس نوعیت کی علاقائی تنظیم کے رکن ملکوں میں نہیں پائی جاتی۔ لیکن اس کے باوجود کہ سارک کو قائم ہوئے اکتیس سال سے زیادہ ہوگئے لیکن یہ تنظیم عملی اعتبار سے وہیں ہے جہاں اپنے قیام کے وقت تھی۔ بدقسمتی سے سارے رکن ملکوں میں ایسے گروپ ہیں جن کا وجود ہی اس بنیاد پر قائم ہے کہ سارک ممالک ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہندوستان، جو علاقے کا ہر اعتبار سے بڑا ملک ہے، اس کے سیاسی رہنما بہت ہی تنگ نظر ہیں، ان سے وسیع القلبی اوردور اندیشی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔
اگر آپ سارک کی 1985 کی پہلی کانفرنس سے لے کر 2014 کی اٹھارویں کانفرنس تک کے اعلامیوں پر نظر ڈالیں اور دوسری طرف خطے کے مسائل کو دیکھیں، تو ہم ایک لمحے میں اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ یہ اعلامیے خواہشات سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ صاف لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سارک اپنے قیام کے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ لہذا اب اس تنظیم کے مستقبل کا بھی تعین ہونا چاہیے کہ کیا سارک یونہی چلتی رہے گی جیسے کہ اب تک چلتی آئی ہے یعنی بھارت کی تھانیداری اورنشستند، گفتند اور برخواستند یا پھر یہ رکن ممالک کے عوام کی خواہشات کی آواز بن کر ابھرے گی جو اس کا بنیادی مقصد ہے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو بہتر ہوگا پاکستان سارک تنظیم سے علیدہ ہو جائے۔