تحریر : سید توقیر حسین زیدی افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے سلسلہ میں اب انہیں پاکستان سے کوئی امید نہیں۔ گزشتہ روز افغان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مصالحتی عمل میں کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے افغان طالبان کیخلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ انکے بقول پاکستان افغانستان سے کئے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتا تو وہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کیخلاف آواز اٹھائیں گے۔ اشرف غنی نے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ طالبان کی قیادت کوئٹہ اور پشاور میں مقیم ہے جہاں سے افغانستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی توقع نہیں۔ پاکستان اچھے اور برے دہشت گردوں میں تمیز کئے بغیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان دہشتگرد گروپوں کیخلاف کارروائی کرے جو اسکی سرزمین افغانستان کیخلاف استعمال کرتے ہیں۔ افغان حکومت اپنی سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کا خون بہانے والوں کیخلاف سخت اقدامات کریگی۔ انہوں نے کہا کہ افغان حکومت ان گروپوں کے ساتھ امن چاہتی ہے جو تشدد کا راستہ ترک کرکے آئین کو تسلیم کریں اور دہشتگرد گروپوں کیساتھ تعلقات ختم کردیں۔ امن کے دروازے تمام دھڑوں کیلئے کھلے نہیں رکھے جائینگے’ افغانستان کے دشمنوں میں داعش’ القاعدہ’ حقانی اور طالبان گروپ ہیں جو افغان شہریوں کا خون بہا کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
Afghanistan
اس وقت جبکہ افغانستان میں مستقل قیام امن کیلئے پاکستان ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے پلیٹ فارم سے امریکہ اور چین کی معاونت سے کوششیں بروئے کار لارہا ہے اور گزشتہ روز نئی دہلی میں ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے چھٹے اجلاس کا انعقاد ہوا جس سے ایک روز قبل افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کیخلاف زہرافشانی کرکے اسکی امن کوششوں میں اس کا سفر کھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے تو اس سے یہ واضح عندیہ ملتا ہے کہ کابل انتظامیہ ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت پاکستان دشمنی والی کرزئی دور کی پالیسیاں ہی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ افغان صدر کو اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہیے کہ پاکستان نے تو افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے افغانستان کے امن کی خاطر دہشتگردوں کی دشمنی مول لی اور افغان طالبان کے مختلف گروپوں اور دوسرے دہشت گردوں کی جنونی وارداتوں کا اپنی سرزمین پر خود سامنا کیا جن کے خودکش حملوں اور دہشتگردی کی دوسری وارداتوں میں اب تک ہمارے وطن عزیز کے ساٹھ ہزار سے زیادہ بے گناہ شہری بشمول سکیورٹی فورسز کے دس ہزار جوان و افسران کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں جبکہ دہشت گردی کی ان وارداتوں میں ہماری معیشت کا 70 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے۔
اور تو اور امریکی ڈرون حملے بھی ہمارے لئے اسی افغان جنگ کا ہی تحفہ ہیں جن کے بارے میں تین امریکی تعلیمی اداروں کی مشترکہ سروے رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ان ڈرون حملوں کا زیادہ تر معصوم شہری نشانہ بنے ہیں۔افغان سرزمین پر قیام امن کی خاطر ہمیں صرف یہی نقصان نہیں اٹھانا پڑا بلکہ کرزئی عملاً بھارتی ایجنٹ کا کردار ادا کرتے ہوئے نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی بھی ترغیب دیتے رہے۔ نیٹو کے گن شپ ہیلی کاپٹروں کی جانب سے پاکستان کی سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کابل انتظامیہ کی اس سازش کا ہی شاخسانہ تھا جبکہ کرزئی نے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو بھی افغان سرزمین سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف سازشوں کے جال پھیلانے کا مکمل موقع فراہم کیا چنانچہ بھارت نے افغان فوجیوں کی تربیت کے بہانے اسکے مختلف غیرمعروف شہروں میں بھی اپنے قونصل خانے قائم کئے جہاں سے ”را” کے دہشتگردوں کو تربیت’ اسلحہ اور فنڈنگ کیساتھ افغان سرحد سے پاکستان میں داخل کرنے کا سلسلہ شروع کیا جبکہ کابل انتظامیہ کی سرپرستی میں ہی بھارت نے پاکستان کی سالمیت کیخلاف یہ ساری سازشیں پروان چڑھائیں’ نتیجتاً طالبان کے بھیس میں بھارتی ”را” کے دہشتگردوں نے جتھہ بند ہو کر کھلم کھلا پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹوں کے علاوہ ملحقہ سول آبادیوں پر بھی حملے کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا جو آج بھی جاری ہے۔
pakistan
درحقیقت افغانستان کا شروع دن سے ہی پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رہا ہے جس کا آغاز ظاہرشاہ نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کیخلاف واحد ووٹ دیکر کیا تھا۔ اس طرح اس خطے میں برادر مسلم ملک کی حیثیت سے پاکستان کے ساتھ امن و آشتی اور ہم آہنگی کی جو توقع افغانستان سے تھی وہ کابل انتظامیہ نے شروع دن سے ہی خاک میں ملا دی۔ سوویت یونین کیخلاف امریکی سرد جنگ میں افغانستان نے پاکستان کی معاونت سے فائدے سمیٹے مگر اسکے ساتھ دشمنی والا رویہ برقرار رکھا جبکہ امریکی نائن الیون کے بعد نیٹو فورسز نے افغان دھرتی پر دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ کا آغاز کیا تو پاکستان میں افغان مہاجر کی حیثیت سے معمولی کاروبار کرنیوالے حامد کرزئی نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور امریکی مخبر کا کردار ادا کرتے ہوئے جہاں نیٹو فورسز سے افغان دھرتی کا تورابورا بنوایا وہیں وہ امریکی بیساکھیوں پر افغانستان میں اقتدار حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے جبکہ اپنے اقتدار کی دو ٹرمیں انہوں نے بھارتی زبان بولتے ہوئے پاکستان دشمنی میں گزار دیں۔
گزشتہ سال رن آف الیکشن کے نتیجہ میں جب اشرف غنی افغانستان کے صدر بنے تو انہوں نے پاکستان کیلئے خیرسگالی کا پیغام دیا اور اقتدار سنبھانے کے بعد وہ اپنے پہلے غیرملکی دورے پر پاکستان آئے تو یہاں جی ایچ کیو راولپنڈی میں انہیں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خود افغانستان کے محفوظ ٹھکانوں میں چھپے دہشتگردوں کی ٹھوس شواہد کے ساتھ نشاندہی کی جن میں پاکستان پر حملہ آور ہونیوالے طالبان لیڈر حکیم اللہ محسود کے ساتھی اور طالبان کے دوسرے گروپوں کے دہشتگرد بھی شامل تھے۔ اس بریفنگ میں ہی افغان صدر کو شمالی وزیرستان میں جاری افواج پاکستان کے اپریشن ضرب عضب کے بارے میں بھی مکمل بریفنگ دی گئی اور باور کرایا گیا کہ یہ اپریشن بلاامتیاز دہشتگردوں کے تمام گروپوں کیخلاف جاری ہے جس میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ ان سے دہشتگردوں کیخلاف افغان دھرتی پر بھی اسی طرز کے اپریشن کا تقاضا کیا گیا۔
اگر یہ تقاضا پورا کرلیا گیا ہوتا تو نیٹو فورسز کی افغانستان سے واپسی کے بعد پاکستان اور افغانستان باہمی تعاون سے خود اس سرزمین پر دہشتگردی کے ناسور کا قلع قمع کرچکے ہوتے مگر اشرف غنی نے بھی دہلی کے فریب میں آکر کرزئی کی طرح بھارتی لب و لہجے میں بات کرتے ہوئے دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا سلسلہ شروع کردیا اور بجائے اسکے کہ افغانستان میں امن کی پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کیا جاتا’ پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا حالانکہ دہشتگردوں کے تمام ٹھکانے آج بھی افغان دھرتی پر موجود ہیں جنہیں بھارتی مقاصد کے تحت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے ٹھوس ثبوت بھی پاکستان نے ایک ڈوسئیر کی شکل میں اقوام متحدہ اور امریکی دفتر خارجہ کو پیش کئے ہیں جن میں بھارتی ”را” کے دہشتگردوں کے افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔
Terrorism
اسکے باوجود امریکی دفتر خارجہ کی جانب سے گزشتہ دنوں پاکستان سے تقاضا کیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین افغانستان میں دہشتگردی کیلئے استعمال نہ ہونے دے۔ یہ صورتحال الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے کہ پاکستان سے تمام طالبان گروپوں کیخلاف بلاامتیاز کارروائی کا تقاضا کیا جاتا ہے جبکہ پاکستان اپنی سلامتی کی خاطر بلاامتیاز کارروائی عمل میں لا رہا ہے مگر امریکہ اور افغانستان اپنی ضرورت کے تحت طالبان کے مختلف گروپوں سے امن مذاکرات کی بھیک مانگتے بھی نظر آتے ہیں۔ اب ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے موقع پر بھی طالبان کا وفد ملاشہاب الدین کی قیادت میں افغان حکومت سے مذاکرات کیلئے قطر سے پاکستان آیا ہے۔
جس کی طالبان کے ذرائع نے تصدیق بھی کی ہے تو پاکستان کو یہ سارا بوجھ بھی تو افغانستان میں قیام امن کی خاطر اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اسکے برعکس کابل انتظامیہ کی طوطاچشمی ایسی ہے کہ افغان صدر اشرف غنی آج بھی دہشتگردی کا ملبہ پاکستان پر ہی ڈال رہے ہیں۔ کیا ان تک ابھی یہ خبر نہیں پہنچی کہ پاکستان تو اسی کی سلامتی کی خاطر دہشتگردوں کے تمام گروپوں سے بلاامتیاز برسر پیکار ہو کر خود بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھارہا ہے اور دہشتگردوں کی کمر توڑرہا ہے جس کا فائدہ بہرصورت افغانستان کو بھی پہنچے گا۔
ان زمینی حقائق کے برعکس افغان صدر اپنے خیرخواہ پاکستان پر ہی تیرونشتر چلا رہے ہیں تو لازماً وہ پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے بھارتی ایجنڈے کی ہی وکالت کررہے ہیں۔ انہیں اس حقیقت سے بہرصورت آگاہ ہونا چاہیے کہ دہشتگردوں کا ہر ٹھکانہ افغانستان میں موجود ہے اور جس حقانی نیٹ ورک کیخلاف اپریشن کا وہ ہم سے تقاضا کررہے ہیں اسکے نیٹ ورک کا مرکز بھی افغانستان ہی میں موجود ہے۔ اس صورتحال میں افغان صدر کو پاکستان سے کوئی تقاضا کرنے کے بجائے اپنی ”منجھی” کے نیچے ڈانگ پھیرنی چاہیے اور پاکستان کیخلاف زبان دراز نہیں کرنی چاہیے۔ افغانستان میں دہشتگردوں کو نکیل ڈالنے کی بنیادی ذمہ داری بہرصورت کابل انتظامیہ ہی کی ہے۔