پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی لازوال، دونوں برادر اسلامی ملک ، دونوں کے دشمنوں کی تعداد بھی زیادہ، گزشتہ کالم میں ذکر کیاتھا کہ کس طرح دونوں ممالک کے دشمن پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور انہیں ہمیشہ ناکامی ہوتی ہے، ملائشیا سمٹ سے قبل اور بعد میں جو طوفان کھڑا گیا وہ سب کے سامنے ہے، سمجھ نہیں آتی کہ امت مسلمہ کے اتحاد کے دعویدار اور پھر دو مسلم ممالک کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والے بھی اپنے،یہ دوہرا پن کیوں ہے؟ ایک طرف امت کے مسائل کے حل کے لئے کانفرنس کی جاتی ہے دوسری جانب دو برادر اسلامی ملکوں کے مابین اختلافات اور پروپیگنڈے کی حد کی جاتی ہے، ترک صدر کا سعودی عرب اور پاکستان کے بارے میں بیان میں کتنی حقیقت تھی سعودی عرب نے بتا دی اور پاکستان بھی اس پر موقف دیا، پاکستان نہیں چاہتا کہ امت مسلمہ میں تفریق ہو لیکن امت کو جوڑنے کے نام پر امت میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، سعودی عرب نے اعلان کیا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات ایسے نہیں کہ دھمکیاں دی جائیں،سعودی عرب اور پاکستان کے مابین رشتے اتنے مضبوط ہیں کہ ان کے درمیان دھمکیوں کی زبان استعمال ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔دونوں ممالک کے مابین برادرانہ تعلقات اعتماد، افہام و تفہیم اور باہمی احترام پر مبنی ہیں۔ یہ تعلقات دیرینہ دوستی اور سٹریٹجی پر قائم ہیں اور دونوں ملک بیشتر علاقائی اور بین الاقوامی امور خصوصاً امت مسلمہ کے امور پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان مسلم اتحاد کے نظریے اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے کردار کو برقرار رکھنے پر مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ سعودی عرب ہمیشہ پاکستان کو ایک کامیاب اور مستحکم ملک دیکھنا چاہتا ہے، دونوں ملکوں کے مابین برادرانہ تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب ہمیشہ مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔
ملائشیاسمٹ میں شرکت نہ کرنا پاکستان کا اپنا فیصلہ تھا اور اس ضمن میں پاکستان نے مہاتیر محمد کو آگاہ بھی کر دیا تھا، ترک صدر طیب اردوان جو پاکستان میں امت مسلمہ کے ہیرو سمجھے جاتے ہیں انہوں نے پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف بیان بازی کر کے کوئی عقلمندی والا کام نہیں کیا، طیب اردوان یہ بھی بتا دیتے کہ اسرائیل کے ساتھ ان کے کتنے تجارتی معاہدے ہیں ، اسرائیلی صدر نے کس اسلامی ملک کی پارلیمنٹ میں خطاب کیا تھا، مسلمانوں کے قاتل اور بیت المقدس پر قابض اسرائیل کے ساتھ دفاعی معاہدے کس کے ہیں، پاکستان کو ماضی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے کون کہتا رہا؟ طیب اردوان یہ بھی بتا دیتے کہ اسرائیل کے ساتھ اس کی تجارت زیادہ ہے یا پاکستان کے ساتھ،ملائشیا سمٹ میں بڑے بیان دے کر اور پھر دو برادر ملک کے خلاف بیان دے کر اردگان کیسے امت کے اتحاد اور امت کے مسائل کی حل کی بات کر سکتے ہیں ،کانفرنس سے پہلے او آئی سی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا کیونکہ او آئی سی کا صدر دفتر سعودی عرب میں ہے اور او آئی سی امت مسلمہ کے مفادات کی ضامن ہے، او آئی سے نے کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا ہمیشہ امت مسلمہ کی حمایت کی، ابھی بھارت میں متنازعہ شہریت بل کے حوالہ سے بھی او آئی سی نے تشویش کا اظہار کیا،او آئی سی کے خلاف کانفرنس میں کچھ نہ بنا اور بنتا بھی کیسے کیونکہ پاکستان سازش کو سمجھ چکا تھا اسی لیئے وزیراعظم عمران خان نے ملائشیا کانفرنس میں شرکت نہیں کی، ترکی کی خواہش تھی کہ پاکستان ملائشیا سمٹ میں شرکت کرے تا کہ سعودی پاک تعلقات خراب ہوں لیکن وزیراعظم عمران خان جنہیں اللہ نے یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ بروقت درست فیصلہ کرتے ہیں، عمران خان کے ملائشیا نہ جانے پر تنقید کی گئی لیکن ان کا فیصلہ درست تھا اور بعد میں بھی یہ ثابت ہو گیا کہ اصل میں دو دوست ملکوں کے خلاف سازش تھی جسے پاکستان نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ پاکستان نے اس امر کا اعلان کیا کہ او آئی سی کے بانی اراکین میں پاکستان شامل ہے اوراو آئی سی کا متبادل کوئی نہیں ہو سکتا۔
ملائشیاسمٹ کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے خلاف پروپیگنڈہ جاری ہی تھا کہ پاکستان سے پارلیمانی وفد سعودی عرب گیا، وفد کی قیادت سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کی، پاکستانی وفد نے سعودی عرب میں خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی، ملاقات میں دوطرفہ تعلقات، مسلم امہ کو درپیش چیلنجز اور باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ مسلم امہ کو درپیش چیلنجز اور تنازعات کے حل کے لئے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میںجاری کرفیو کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں معمولات زندگی بری طرح مفلوج ہو چکے ہیں اور اس صورتحال کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں خوراک اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ پاکستان سعودی عرب کے ساتھ اپنے تاریخی برادرانہ تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا سچا دوست اور مخلص بھائی ہے۔
پاکستان کے عوام سعودی عرب اور حرمین الشریفین کے خادمین کے ساتھ گہری دلی وابستگی رہتے ہیں، پاکستان پارلیمانی اور اقتصادی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دے کر دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینا چاہتا ہے۔پاکستانی پارلیمانی وفد سے سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امت کو درپیش چیلنجز کے حل کے لئے مسلم ممالک میں اتحاد ناگزیر ہے، خطہ میں امن اور مسلم ممالک میں اتحاد کے لئے پاکستان کا کردار قابل تحسین ہے۔ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے پر امن طور پر حل کیا جانا چاہیے، سعودی عرب مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پر امن حل چاہتا ہے، پاکستان اسلامی دنیا کا ایک اہم ملک ہے، اس کی تعمیر و ترقی کے لئے سعودی عرب ہر ممکن تعاون جاری رکھے گا۔
پاکستانی پارلیمانی وفد نے سعودی مجلس شوریٰ کا دورہ کیا اور اس موقع پر قومی اسمبلی اور سعودی مجلس شوریٰ کے درمیان پالیمانی تعاون کے فروغ کے حوالہ سے ایک مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کئے، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سعودی شوریٰ کونسل کے چیئرمین سے ملاقات کی جس میں سعودی شوریٰ کونسل اور قومی اسمبلی کے درمیان پارلیمانی روابط کے فروغ اور مسئلہ کشمیر کے حل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ملاقات میں عالم اسلام کو درپیش چیلنجز تبادلہ خیال کیاگیا اور سعودی شوریٰ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ اور سپیکر کے درمیان اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ عالم اسلام میں اتحاد وقت کی اہم ضرورت ہے اور ہمیں مغرب میں اسلامو فوبیا جیسے بڑھتے ہوئے رحجان کا مل کر مقابلہ کرنا چاہئے۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ او آئی سی کو مسئلہ کشمیر کے حل اور مغرب میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا جیسے رحجان کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔انہوں نے اپنے سعودی ہم منصب کو آئندہ سال کے اوائل میں عالمی کشمیر کانفرنس کے اسلام آباد میں انعقاد کے حوالہ سے تفصیلات سے بھی آگاہ کیا اور کانفرنس کے انعقاد کے حوالہ سے سعودی عرب کے تعاون پر شکریہ بھی ادا کیا۔سعودی شوریٰ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ محمد ابراہیم الشیخ نے پاکستانی پارلیمانی وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت اور شوریٰ کونسل اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ بھارت کو کشمیر میں اپنی چیرہ دستیاں بند کر دینی چاہئے اور کشمیریوں کو ان کا آئینی حق دینا چاہئے۔
پاکستان اور سعودی عرب کے مابین دوستانہ، برادرانہ تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی سازشیں ناکام ہوئیںاور ملائشیا سمٹ کے بعد پاکستانی پارلیمانی وفد کا دورہ سعودی عرب اس بات کا عکاس ہے کہ دونوں برادر ملک ایک دوست کے انتہائی قریب ہیں، پارلیمانی وفود کے تبادلے سے تعلقات مزید مضبوط ہوں گے، خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے پاکستانی وفد سے پاکستا ن بارے جن جذبات کا اظہار کیا وہ دونوں ممالک کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے لئے کافی ہیں، پاکستانی وزیراعظم عمران خان بھی سعودی عرب کے حوالہ سے کہہ چکے ہیں کہ مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہو گا، یہ صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ عملی تصویر بھی موجود ہے، سمجھنے والوں کے لئے کافی ہے کہ پاکستان ملائشیاسمٹ میں کیوں نہیں کیا گیا اس میں نہ صرف طیب اردگان بلکہ دیگر کے لئے بھی بہت بڑا پیغام ہے۔