ایک وقت تھا کہ پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی مثالی ہوا کرتی تھی۔ یہ ذولفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت تھا جس میں صرف سعود ی عرب ہی نہیں بلکہ سارا خطہِ عرب پاکستان سے دوستی کا دم بھرتااور اس پر ناز کرتا تھا ۔ اسلا می دنیا میں پاکستان کو ایک رہبر کا مقام حاصل تھااور ذولفقار علی بھٹو کو ایک زیرک قائد کا رتبہ حاصل تھا۔شاہ فیصل شہید،یاسر عرفات ،کرنل معمر القضافی ، جمال عبدالناصر ،شیخ زید بن سلطان النہیان اور حافظ الاسد قائد عوام کے ذاتی دوستوں میں شمار ہوتے تھے ۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا عظیم الشان معرکہ متذکرہ بالا قائدین کی ذاتی کاوشوں اور مالی اعانت کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ ذولفقار علی بھٹو کی کرشماتی شخصیت کا کمال تھا کہ انھوں نے امریکی ناراضگی کے باوجود ان قائدین کو ایٹمی قوت کے حصول کے نظریہ پر قائل کیا ۔ امریکہ مخالف ہوجائے لیکن اس کے باوجود عرب پاکستان کا ساتھ دیں ایک انہونی بات تھی لیکن ہماری نگاہوں کے سامنے قائدِ عوام نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے انہونی کو ہونی میں تبدیل کیا ۔ایسا کیسے ممکن ہوا اس کہانی کے کردار ہی حقائق پر لب کشائی کرنے اورپوشیدہ راز بیان کرنے پر حرفِ آخر کا درجہ رکھتے ہیں لیکن بد قسمتی سے ان میں سے کوئی کردار بھی آج اس دنیا میں موجود نہیں ہے جو ہمیں بتا سکے کہ یہ مخیر العقول کارنامہ کیسے ممکن ہوالہذا مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ایٹمی قوت کا عظیم الشان کارنامہ ذولفقار علی بھٹو کی عظیم قیادت کا سب سے حسین تحفہ ہے ۔انسان اندر سے بے خوف ہو جائے تو طاقت کی ہیبت بھی دم توڑ جاتی ہے۔
انسانی عظمت کے سارے سوتے انسان کی روح سے پھو ٹتے ہیں لہذا جب روح سرشاری پر اتر آئے تو کسی سپر پاور کا خوف مانع نہیں ہو تا۔ہدف واضح اور بڑا ہو تو دل خود بخود بڑا ہوجاتا ہے۔ڈرجانا جی داروں کا شیوہ نہیں ہوتا۔تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جی دار ہدف کی خاطر سدا جان پر کھیلتے آئے ہیں ۔ سوٹ میں ملبوس اور درویشی چوغے میں ملبوس انسان جی داری میں بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ان کی ظاہری ہئیت تو مختلف ہوتی ہے لیکن ان کے دل ایک طرح سے دھڑکتے ہیں۔
پاکستان کے محدود ملکی ذرائع سے ایٹمی توانائی کے خو اب میں حقیقت کے رنگ نہیں بھرے جا سکتے تھے۔ایک خوا ہش تھی جو تکمیل چاہتی تھی لیکن گھر کے مخدوش مالی حالات اس آرزو کی تکمیل میں سدِ راہ بنے ہوئے تھے ۔ذولفقار علی بھٹو کو بھارتی دھماکوں سے جس فوجی عدمِ مسابقت کا سامنا کرنا پڑ گیا تھا اس کا واحد حل ایٹمی قوت کا حصول تھا لیکن بد قسمتی سے گھر کی حالت انتہائی نا گفتہ بہ تھی جو اتنے بڑے منصوبہ کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس کیلئے ایٹمی صلاحیت کے بوجھ کو اٹھا نا ممکن نہیں تھا۔یہ اس کی سکت سے باہر تھا لیکن اس کا حصول انتہائی ضروری تھا ۔گھاس کھانے سے مسئلہ حل ہو جاتا تو پھر قوم گھاس کھانے سے بھی اعراض نہ برتتی لیکن یہ مسئلہ کا کوئی پائدار حل نہیں تھا۔قوم کچھ بھی کرنے کیلئے تیار تھی لیکن اسے ہندو کی غلامی کسی بھی حال میں قبول نہیں تھی۔اس نے تو اس غلامی کے پٹہ کو لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کے بعد ١٤ اگست ١٩٤٧ کو اپنے گلے سے اتار پھینکا تھا لہذا وہ اسے کسی بھی قیمت پر دوبارہ پہننے کیلئے تیار نہیں تھی۔یہ بات باعث طمانیت تھی کہ عرب ممالک ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ محبت کرتے تھے۔ان کی فہم و فرست کے دل سے قائل تھے۔ان کی دانش اور تدبر کو سراہتے تھے۔ان کی دور نگاہی کو نگاہ میں وقعت دیتے تھے۔ان کی حب الوطنی کو سلام کرتے تھے۔امتِ مسلمہ کے اتحاد سے ان کے جذبوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔عربوں سے دوستی کے ان کے اعلانات اور عملی اقدامات کے معترف تھے ۔انھیں ایک ایسے قائد کے روپ میں دیکھتے تھے جس کا دل امتِ مسلمہ کی عظمت کی خا طر دھڑکتا تھا۔اسرائیل کے خلاف ان کی جرات مندانہ للکار سے ان کے دل ِ نا تواں میں بجلی کوند جاتی تھی۔وہ اسے ایک مخلص اور ریا سے پاک قائد کا مقام دیتے تھے اور اسے بطلِ حریت کہہ کر پکارتے تھے۔ دل دل سے مل جائیں تو یار کی باتیں بھلی معلوم ہو تی ہیں لیکن اگر دلوں میں بال آجائے تو اچھی بات بھی دل کو ناگوار گزرتی ہے۔ذولفقار علی بھٹو عربوں کے دل کا تارا تھے لہذا ان کی باتیں انھیں بھلی معلوم ہوتی تھیں۔وہ ان کی باتوں کو وزن دیتے تھے کیونکہ ان کی اپنی سلامتی بھی ان سے جڑی ہوئی تھی ۔انھیں اسلام کی نشاةِ ثا نیہ کا علمبردار سمجھتے تھے ۔لیکن اس کے باوجود لعل و زرو جواہر کے حاملین کو ایٹمی صلاحیت کے حصول پر قائل کرنا جان جوکھوںکا کام تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب دوستوں کے پاس دولت کے ڈھیر تھے لیکن وہ اس دولت کے منہ پاکستان کے کسی پروگرام کی خاطر کیوں کھولیں گے یہی نقطہ انتہائی گہرے غورو عوض کا متقاضی تھا اور اس گرہ کو کھولنا ذولفقار علی بھٹو کی عظیم صلاحیتوں کا امتحان تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ اسی گرہ کشائی میں ہی پاکستان کے مستقبل اور اس کی بقا کا دارو مدار تھا۔امریکہ مدِ مقابل ہو تو پھر کون حمائت کا خطرہ مول لے گا ۔؟امریکہ سے دشمنی کا انجام سبھی جانتے ہیں۔اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور جان سے جانے کا دھڑکا الگ سے لگا رہتا ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ امریکہ کب اقتدار کی سیڑھی کھینچ کر موت کی وادی کا راستہ دکھا دے۔موت کا خیال انھیں خوف و ہراس کا قیدی بنادیتا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود دوستوں کی اعانت ضر وری تھی، ان کا ساتھ لازمی تھا اور ان کی ہمت افزائی اہم تھی۔دوست قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلیں تو منزل کا حصول ممکن تھا وگرنہ ایک خواب کو خواب ہی رہ جانا تھا اور کبھی حقیقت کا جامہ نہیں پہن سکنا تھا ۔خواب سے حقیقت تک ایک قطرے کو گوہر بننے میں کن کن مراحل سے گزرناپڑا یہ ایک الگ داستان ہے۔
سچ یہی ہے کہ مخلص دوستوں کی اعانت پاکستان کا مقدر بنی تو تب کہیں جا کر پاکستان اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بناجس کا سہرا بلا شبہ قائدِ عوام ذولفقار علی بھٹو کے سر بندھتا ہے۔پاکستان سے ان کی محبت کو جانچے کا سب سے بڑا پیمانہ ا یٹمی قوت کا حصول ہے۔اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو بھارت پاکستان کے ساتھ جو سلوک روا رکھتا وہ سب پر عیاں ہے ۔وہ اکھنڈ بھارت کے جس خواب کے لئے مرا جا رہا ہے اس کیلئے وہ سب کچھ پسِ پشت ڈال کر پاکستان پر حملہ آور ہوجا تا اور اپنی گندی خواہش کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حر بہ استعمال کرتا ۔یہ خطہ آگ و خون میں نہا جاتا اور کشتوں کے پشتے لگ جاتے۔
کئی نسلیں تباہ و برباد ہو جاتیں۔ایمان کے متوالے خدا کی واحد انیت کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتے لیکن بھارت کی ازلی خواہش کو کبھی پورا نہ ہونے دیتے۔ وہ کٹ جاتے،وہ مر جاتے لیکن وطن کی سالمیت پر کوئی آنچ نہ آنے دیتے اور وطن کی خاطر قربانیوں کی نئی داستان رقم کر جاتے۔قربانی دینا تو ہر مسلمان کے خون میں شامل ہے ،ان کی سرشت میں شامل ہے ،ان کے ایمان کی بنیاد ہے اور شہادت کا رتبہ ان کی ازلی خوا ہش ہے لہذا ہندو کے سامنے ڈٹ جانا ان کے لئے فخرو ناز کا مقام ۔اہلِ ایمان دشمن کی عددی قوت سے مرعوب نہیں ہوتے اور نہ ہی اس سے خوفزدہ ہوتے ہیں لہذا لاالہ اللہ کی قوت سے دشمن پر جھپٹنے میں انھیں دلی طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور یہی دلی طما نیت دشمن کے دانت کھٹے کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے ۔ ذولفقار علی بھٹو کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے آنے والی نسلوں کو جنگوں کی تباہی ، کشت و خون، دہشت گردی اور انتشار سے بچا کر امن کی راہ پر ڈال دیا۔امن اسلام کا سنہری اصول اور اس کی بنیاد ہے لیکن امن کا حصول قوت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا لہذا امن کی بحالی کی خاطر ایٹی قوت کا حصول ضروری تھی ۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال