تحریر : کلیم اللہ وزیراعظم محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وفد کے ساتھ سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال، ایران سعودی عرب کشیدگی کم کرنے اور دو طرفہ تعلقات پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم نواز شریف اور شاہ سلمان کے درمیان 34 منٹ کی ون ٹو ون ملاقات ہوئی ہے۔اس دوران دونوں ملکوںکی قیادت نے پاکستان اور سعودی عرب کے عوام کے درمیان گہرے رشتوں کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی پر بھی بات ہوئی۔میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے سعودی فرمانروا کو آگاہ کیا کہ پاکستان سعودی عرب کی سلامتی کو بہت اہم سمجھتا ہے یہ اس کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کو کسی بھی خطرے کی صورت میں سخت رد عمل کا مظاہرہ کریگا۔ حرمین شریفین کا تحفظ پوری امت مسلمہ کا فرض ہے پاکستان بھی اسے اپنا فرض سمجھتا ہے۔ پاکستان امت مسلمہ کے اتحاد کا حامی ہے۔ انہوں نے سعودی عرب سمیت تمام خلیجی ممالک سے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ مسلم ممالک کے درمیان اختلافات کے خاتمے کیلئے ہر طرح سے خدمات پیش کر نے کیلئے تیار ہیں۔
وزیر اعظم نے مسلمانوں کی یکجہتی اور پاکستانی عوام سے خصوصی لگائو پر خادم حرمین شریفین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی حکومت اور عوام انہیں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سعودی فرمانروانے پاکستان کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں امن اور کشیدگی کے خاتمے کیلئے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی اور پاکستانی قیادت کی جانب سے ذاتی دلچسپی کو سراہا۔ سعودی عرب’ ایران کشیدگی امت مسلمہ کو متاثرکر رہی ہے، وزیراعظم اور آرمی چیف کی دونوں ممالک کی قیادت سے ملاقاتیں مسلم امہ کی توقعات کے عین مطا بق ہیں۔ سعودی عرب ہمارا انتہائی قریبی دوست ہے۔موجودہ حالات میں امت مسلمہ پاکستان سے اسی کردار کی توقع کررہی ہے خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے وزیر اعظم نوازشریف کو ایران کے ساتھ سعودی عرب کی کشیدگی کے خاتمے کیلئے ہر مثبت اقدام کی حمایت کا یقین دلایا۔ ملاقات میں سعودی کابینہ کے ارکان اور شاہی خاندان کے زعماء بھی شریک تھے۔
قبل ازیں وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کیلئے ریاض پہنچے تو کنگ سلمان ایئرپورٹ پر ریاض کے گورنر نے ان کا استقبال کیا۔ وزیراعظم کے مشیر قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی وفد میں شامل تھے۔ بعد ازاں شاہ سلمان نے وزیر اعظم نوازشریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وفد کے اعزاز میں ظہرانہ دیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف کشیدگی کے خاتمے کے لیے تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی سے بھی ملاقات کر رہے ہیں۔ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے سعودی وزیر دفاع سے ملاقات کی جس میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر غور کیا۔ آرمی چیف نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال سے امت مسلمہ کمزور ہو رہی ہے۔
Salman Bin Abdulaziz
سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب خطے میں امن کا خواہاں ہے وہ پرامن طور پر رہنا چاہتا ہے سعودی عرب پاکستان کی امن کوششوں کا احترام کرتا ہے تاہم سعودی عرب اپنے معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کریگا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے آپس میں قریبی اوردیرینہ تعلقات ہیں۔ جدہ ائر پورٹ پر اترنے سے قبل وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف نے جہاز میں سفر کے دوران قریباً ایک گھنٹہ تک شاہ سلیمان اور ان کے دیگر وزراء سے ہونے والی ملاقات کے ایجنڈا پر گفتگو ہوئی۔ ارکان کھانے کے دوران بھی وزیراعظم نواز شریف اور شاہ سلیمان نے خطہ کی صورتحال پر تبادلہ خیال جاری رکھا۔ اس موقع پر سعودی وزراء نے پاکستانی صحافیوں سے کھل کر بات چیت کی۔ ظہرانے میں پاکستانی اخبارنویسوں کے ماتحت سعودی عرب کے اہم اعلیٰ حکام کی ملاقات کے دوران مشرق وسطیٰ کی صورتحال ایران کے ساتھ سعودی عرب کی کشیدگی پر بات چیت ہوتی رہی۔ وزیراعظم نوازشریف نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی پر انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس تنازعہ کے جلد اور پرامن حل پر زور دیا اور کہا کہ سعودی عرب بھی مسائل کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔
پاکستانی عوام سعودی عرب کی سالمیت کو درپیش کسی بھی خطرے کی صورت میں سعودی عوام کے ساتھ کھڑے ہونگے، پاکستان چاہتا ہے کہ امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اس تنازعہ کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے سعودی عرب کیلئے پاکستانی عوام کی محبت کے جذبے کو سراہتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب مسلم امہ میں بھائی چارے کا فروغ چاہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان دفاع، سلامتی اور معیشت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے، دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مشترکہ دشمن سے ملکر لڑنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم بنانے پر زور دیا گیا۔
وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی کی یہاں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ ملاقات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام سعودی عرب کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ خادم حرمین شریفین کے طور پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا انتہائی احترام کرتے ہیں، دونوں ممالک کے عوام تاریخی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔پاک سعودی حکام کے مابین مذاکرات کے دوران دونوں اطراف سے دفاع، سلامتی، معیشت اور تجارت سمیت تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیاگیا اور اس پر اتفاق کیا گیا کہ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔
Nawaz and Salman Bin Abdulaziz
ملاقات کے دوران سعودی عرب کی زیرقیادت دہشت گردی کیخلاف بنائے جانیوالے 34 ملکی اتحاد کے حوالے سے بھی تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے اس اقدام کو سراہتا ہے اور سعودی عرب کو ہر قسم کے تعاون اور حمایت کا یقین دلاتا ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس عزم کااعادہ کیا کہ پاکستانی عوام سعودی عرب کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو درپیش خطرے کی صورت میں ہمیشہ سعودی عرب کے عوام کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم امہ کے مفاد اور خصوصی طور پر اس مشکل وقت میں سعودی عرب ایران تنازعہ کو جلد اور پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ پاکستان نے ہمیشہ مسلمان برادر رہنمائوں کے ساتھ ہر قسم کے تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
وہ تنازعات کے مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے حل کا خواہاں ہیں۔شاہ سلمان نے پاکستانی قیادت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ سعودی عرب ہمیشہ مسلم ممالک کے درمیان بھائی چارے کے فروغ کیلئے کوشاں رہا ہے۔ مذاکرات کے دوران مشترکہ امورکے حوالے سے عالمی معاملات پر دہشت گردی انتہا پسندی کیخلاف اقدامات کے حوالے سے بھی معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا اور اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں ممالک دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مشترکہ دشمن کو شکست دینے کیلئے ملکر کام کریں گے۔
Pakistan
پاکستان نے 34 ملکی اتحاد کی مکمل حمایت کی اورسعودی عرب کو بھرپور تعاون کا یقین دلایا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ معاملے کا پرامن حل امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں ہے۔ پاکستان مسلم ممالک میں اختلافات دور کرانے کیلئے تیار ہے، کسی خطرے کے پیش نظر سعودی عرب کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، دونوں ملک امت مسلمہ کے وسیع تر مفاد میں اختلافات جلد پرامن طریقے سے حل کرنے کی ضرورت ہے۔