پاکستان میں فرقہ واریت اور عقیدے کی بنیاد پر تشدد، لاقانونیت اور جبر کا سلسلہ طویل عرصہ سے جاری ہے۔ روز بروز اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بعض منفی مذہبی جماعتیں اپنے سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اسلام کا نام استعمال کرتی ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرکے لاقانونیت پر اکساتی ہیں۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی دینی اور سیاسی قوتیں یکساں طور پر ناکام رہی ہیں۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا دو ٹوک بیان اور سال رواں کو مذہبی برداشت کے فروغ کا سال قرار دینے کا اقدام مستحسن اور مثبت پیغام ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ملک میں اقلیتوں کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس مقصد کے لئے قوانین کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ ملک میں قوت برداشت کے رویہ کو فروغ دینا چاہئے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کا یہ بیان بروقت اور بے حد اہم ہے ۔ اس طرح اقلیتوں کے تحفظ کے لئے کام کا آغاز ہو سکتا ہے۔
لاہور میں قومی جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے 2014ء کو مذہبی آزادی اور قوت برداشت کے فروغ کا سال منانے کی تجویز پیش کی۔ کمیٹی نے یہ تجویز اتفاق رائے سے منظور کر لی۔ عدالت عظمیٰ کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ اس وقت اہل پاکستان کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جن میں انتہا پسندی بدترین مسئلہ ہے ۔ معاشرے میں عدم برداشت کا رویہ فروغ پا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم قوت برداشت کے فروغ اور مذہبی آزادی کے تحفظ کا پرچار کر کے اس منفی رجحان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ صرف اسی طرح ایک پرامن اور خوشحال معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔یہ بات بھی بے حد اہم ہے کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اقلیتوں کے تحفظ کے لئے ایک طرف سماجی رویوں میں تبدیلی کی بات کی ہے تو اس کے ساتھ ہی ملک کے قوانین کو مؤثر بنانے پر بھی زور دیا ہے ۔ اس سے قبل قابل عزت چیف جسٹس یہ قرار دے چکے ہیں کہ عدالتیں اقلیتوں کے تحفظ کے لئے قوانین کو درست طور سے استعمال کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ اس طرح انہوں نے ان بے لگام مذہبی اور سماج دشمن قوتوں کو صاف پیغام دیا تھا جو دباّ اور دہشت گردی کے ذریعے عدالتوں کو ماورائے قانون بے گناہ لوگوں کو سزا دینے پر مجبور کرتی رہی ہیں۔
Chief Justice
دنیا کے متعدد ملکوں میں مسلمان اور پاکستانی آباد ہیں۔ وہاں انہیں معمولی اقلیت کے طور پر رہنا پڑتا ہے۔ ان اقلیتی مسلمانوں کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی حفاظت کریں اور انہیں قبول کریں۔ چیف جسٹس کے بیان کا یہ حصہ اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ بعض خود سر عناصر نے باقاعدہ مہم سازی کے ذریعے ملک سے اقلیتی آبادی کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے ۔ سندھ سے ہندوّں کی بڑی تعداد مذہبی تعصب اور زیادتی کی وجہ سے بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہو گئی تھی۔ اس رویہ کو فروغ دینے کے لئے طالبان نواز عناصر نے ملک کے متعدد اہم بزرگان دین کے مزارات پر بم دھماکے بھی کئے تھے۔ اس کی وجہ سے کراچی سے لے کر پشاور تک ایسے تمام مقامات پر سکیورٹی کے نہایت سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔ ایسے مقابر جو آسانی سے لوگوں اور عقائدین کی دسترس میں تھے ، اس نئی صورتحال میں وہاں پہنچنا نہایت مشکل ہو چکا ہے۔ عقیدہ کو بنیاد بنا کر ملک میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی ٹارگٹ کلنگ نہایت بھیانک شکل اختیار کر چکی ہے۔ بلوچستان میں ایران جانے یا آنے والے زائرین کو خاص طور سے نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں آباد ہزارہ کمیونٹی پر بھی متعدد دہشت گرد حملے کئے جا چکے ہیں۔ حکومت مجرموں کے بارے میں آگاہ ہونے کے باوجود مؤثر کارروائی کرنے میں ناکام رہتی ہے اسی طرح ملک میں توہین مذہب و رسالت کے قوانین کا غلط استعمال بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اقلیتی عقیدہ سے تعلق رکھنے والوں پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگا کر انہیں گرفتار کروایا جاتا ہے ۔ پھر عدالتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ ایسے ” ملزموں ” کو سخت سزائیں دی جائیں۔ اکثر صورتوں میں عدالتی فیصلہ آنے سے قبل ہی ” گروہی انصاف ” کی صورت میں ایسے لوگوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ انتہا پسندی یہاں تک پھیل چکی ہے کہ جیلوں میں قید ملزموں کو بھی مار دیا جاتا ہے اور کسی اقلیتی عقیدہ کے ملزم کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے والے ججوں کو بھی حملوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے محافظ نے انہیں خود ساختہ توجیہہ کے ذریعے انہیں اسلام دشمن قرار دیتے ہوئے قتل کر دیا تھا۔ ان کے قاتل ممتاز قادری کو دیگر لوگوں کے علاوہ احاطہ عدالت میں وکیلوں نے ہیرو کا درجہ دے کر ملک میں انتہا پسندی کی صورتحال کا نمونہ پیش کیا تھا۔ اس شخص کو سزا دینے والے جج کو فوری طور پر اپنے اہل خاندان کے ساتھ ملک چھوڑنا پڑا تھا۔ اس کے بعد ممتاز قادری کے معاملہ پر ابھی تک اعلیٰ عدالت میں غور نہیں ہو سکا۔ راولپنڈی میں اس کا گھر زیارت گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے جبکہ جیل میں اسے خصوصی رتبہ اور مراعات حاصل ہیں۔
مبصرین کاکہنا ہے کہ ان حالات میں ملک کے چیف جسٹس کا بیان اور سال رواں کو مذہبی برداشت کا سال قرار دینے کا اعلان حوصلہ مندانہ اقدام ہے ۔ کسی معاشرے میں بہتری کے آثار پیدا کرنے کے لئے اس کے لیڈروں کو تبدیلی کے لئے آواز بلند کرنا پڑتی ہے ۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاسی لیڈر اس قسم کی قیادت فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اپنے دوٹوک مؤقف پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ امید کی جا سکتی ہے کہ نفرت ، شدت اور ظلم کے خلاف یہ آواز بارش کے پہلے قطرے کی حیثیت اختیار کرے گی۔